آسام : بی جے پی ضلع صدر کی بھیڑ کے ہاتھوں پٹائی ۔

بی جے پی حکمراں ریاست آسام میں ہی بی جے پی لیڈر کی پٹائی کا حیران کرنے والا معاملہ سامنے آیا ہے۔ پٹائی حکومت سے ناراض بھیڑ نے کی ہے اور تشدد کا شکار ہونے والے ہیں بی جے پی کے ضلع صدر لکھیشور مورن ۔ دراصل تشدد کا یہ معاملہ آسام کے تنسکیا ضلع میں 30 جنوری کو پیش آیا جب آر ایس ایس سے جڑی تنظیم لوک جاگرن منچ نے یہاں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ تقریب کا موضوع شہریت ترمیم بل تھا اور اسی میں شرکت کے لیے جب لکھیشور مورن نکلے تو کئی لوگوں نے ان پر حملہ کر دیا۔

اس معاملے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ مورن کی پٹائی کر رہے ہیں اور اس پٹائی کے دوران وہ زمین پر گر بھی جاتے ہیں۔ اس تعلق سے پولس کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیم بل پر آر ایس ایس کی ایک معاون تنظیم نے پروگرام منعقد کیا تھا اور اسی میں شریک ہونے کے لیے بی جے پی لیڈر جا رہے تھے جب مظاہرین نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی۔ جو ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہو رہا ہے اس میں مظاہرین ہاتھ میں ٹائر اور کالے جھنڈے لیے ہیں اور وہ بی جے پی لیڈر پر ’آر ایس ایس سے سانٹھ گانٹھ‘ کرنے کا الزام لگانے کے ساتھ ساتھ چیختے ہوئے بھی نظر آئے۔

تنسکیا کے ایس پی شلادتیہ چیتیا نے اس معاملے میں بتایا کہ ’’ہم نے ’بھارتیہ جنتا یوا مورچہ‘ کی شکایت پر کیس درج کیا ہے۔ اس معاملے میں تین ایف آئی آر درج ہوئے ہیں اور تین گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’گرفتار لوگوں میں سے ایک رانا گوہن ہے جو کہ آل آسام اسٹوڈنٹ یونین (آسو) کا رکن ہے۔ یہی وہ شخص تھا جس نے مورن پر ٹائر سے حملہ کیا۔ ہم یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسے تنظیم میں کیا عہدہ حاصل ہے۔‘‘ ایس پی نے مورن کی پٹائی کے بارے میں اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ پٹائی کے دوران ان کی ایک دانت ٹوٹ گئی اور جسم کے کچھ حصوں میں کافی چوٹیں آئی ہیں۔

بہر حال، اس حادثہ کے بعد علاقے میں سراسیمگی کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر رنجیت کمار داس نے اس واقعہ کی مذمت کی اور ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قصوروار کو فوراً پکڑا جائے۔ انھوں نے اس واقعہ کو ’غنڈہ گردی‘ بھی قرار دیا اور ساتھ ہی متنبہ کیا کہ بی جے پی کے 29 لاکھ کارکنان نے کافی صبر سے کام لیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھیں بھڑکایا جائے۔ دوسری طرف آسو کے جنرل سکریٹری لورنجیوتی گوگوئی نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ وہ اس طرح کے کسی بھی پرتشدد واقعہ سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔