بیدرمیں جلسہ سے اقبال الدین انجینئیر کا خطاب
بیدر /26 مارچ ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز ) انسان کے اخلاص ایمانی میں جو چیز باالعموم خلل ڈالتی ہے جس کی وجہ سے انسان اکثر منافقت ، غداری اور خیانت میں مبتلا ہوجاتا ہے وہ اپنے مالی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد سے اس کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی ہوتی ہے ۔ اسی لئے اللہ نے ہماری آزمائش مال اور اولاد ہمارے لئے پیمانہ بتایا ہے اور جو اس آزمائش میں پورا اترا دنیا و آخرت میں سرخرو ہوگیا کیونکہ اسلام انسانوں کے طبعی رحجانات پر تالا نہیں ڈالتا بلکہ جائز طریقے سے تکمیل کی کوشش کرتا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار اقبال الدین انجینئیر نے شاہ پور بیدر میں اپنے خطاب کے دوران کہا اور موصوف نے مزید بتایا کہ مسلمان دنیا کو صبر و نماز سے فتح کرتا ہے اور ایثار و قربانی کو اپنا شعار بناتا ہے ۔ ظاہری اسباب کے بجائے اللہ پر توکل کرتا ہے ۔ صبر ہماری زندگی میں اس لئے ضروری ہے کہ قرآن میں آتا ہے کہ بغیر صبر کے اللہ کی مدد و رحمت حاصل نہیں کرسکتے جس کی مثال سورۃ احقاف 35 میں نبی کریم کو مشورہ کے طور پر اس طرح دی گئی ہے ۔ آپ صبر کیجئے جیسا کہ صاحب عزیمت پیغمبروں نے صبر کیا ‘‘ ۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی ’’ حق غالب آیا ‘‘ باطل مٹا اور موصوف نے نصیحت کی کہ اللہ کے نیک بندے جب مصائب و وشوائد میں مبتلا ہوتے ہیں تو اپنے رب سے شکوہ سنج نہیں ہوتے بلکہ صبر کے ساتھ اس کی ڈالی ہوئی آزمائشوں کو برداشت کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں ۔ ان کا طریقہ نہیں ہوتا ہے کہ اگر کچھ مدت تک خدا سے مانگتے رہنے پر بلانہ ٹلے تو پھر اس سے مایوس ہوکر دوسروں کے آستانوں پر ہاتھ پھیلانا شروع کردیا ۔ بلکہ و خوب سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ملتا ہے اللہ ہی کے ہاں سے ملتا ہے ۔ اسی لئے مصیبتوں کا سلسلہ چاہے کتنا ہی دراز ہو وہ اس کی رحمت کے امیدوار بنے رہتے ہیں ۔ اسی لئے وہ ان الطاف و عنایت سے سرفراز ہوتے ہیں جن کی مثال ایوب کی زندگی میں ملتی ہے ۔ سوۃ ص 44 میں ان کے صبر کے بارے میں ارشاد ربانی ہے ’’ ہم نے انہیں صابر پایا ‘‘ بہترین بندہ اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا ۔ اقبال الدین دینی مبلغ نے حضرت یعقوب کا صبر کا واقعہ سناکر سورہ یوسف 18 کا حوالہ دیا تو میں صبر ہی کروں گا ۔ جس میں شکایت کا نام ہوگا اور جو باتیں تم بناتے ہو ان میں اللہ ہی مدد کرتے اور جب یوسف نے تکلیفیں جھیلنے کے بعد راحت پائی تو شکر کا اظہار جو انہوں نے کیا ۔ اس کو سورہ یوسف 90 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ’’ اللہ نے ہم پر احسان فرمایا ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقوی اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے لوگوں کا اجر مار انہیں جاتا اور اسمعیل اللہ کے حکم پر قربان ہونے کیلئے تیار ہوگئے تو اللہ سورہ صافات 102 میں اس طرح ذکر کیا ۔ ’’ ابا جان جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے کر ڈالئے آپ انشاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے ۔ حافظ و فصتی نثار صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا اور سامان دنیا کی چمک دمک زیب و زینت ہرگز رشک کے قابل نہیں کیونکہ بہت جلد یہ سب کچھ بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں تبدیل ہوجائے گی ۔ اس لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں تم پر فقر و ناداری کے آنے سے نہیں ڈرتا لیکن مجھے یہ ڈر ضرور ہے دنیا تم پر وسیع کردی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر وسیع کردی گئی تھی ۔ تم اسے بہت زیادہ چاہنے لگو کے جیسے انہوں نے اس کو چاہا پھر وہ تم کو برباد کردے گی ۔ جیسے کہ پہلے لوگوں کو اس نے برباد کردیا ۔ موصوف نے سورہ تحریم 6 سے لوگوں کو نصیحت کی کہ ’’ اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ ‘‘۔