آزادیٔ وطن میں ہمارا لہو بھی ہے

یوم آزادی … مسلمانوں کی ’’یادگار‘‘ سے مودی کا خطاب
کے سی آر مودی کے ساتھ … بلی تھیلے کے باہر

رشیدالدین
یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی تاریخی لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کریں گے۔ بی جے پی حکومت کی میعاد کا یہ آخری سال ہے اور وزیراعظم کی حیثیت سے مودی کا یہ پانچواں اور میعاد کا آخری خطاب ہوگا۔ نریندر مودی کا یہ خطاب سیاسی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈسمبر میں بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور 2019 ء میں لوک سبھا کے عام انتخابات نے مودی کے خطاب کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے۔ لال قلعہ سے ملک بھر کے سامنے اپنے کارنامے بیان کرنے اور آئندہ کے وعدوں اور اعلانات کا یہ آخری موقع رہے گا ۔ ظاہر ہے کہ نریندر مودی اپنی تقریر کی تیاری میں مصروف ہوں گے ۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر عوام نے مسترد کردیا تو لال قلعہ سے ان کا آخری خطاب ہوجائے گا ۔ وزیراعظم کا خطاب سیاسی جماعتوں اور مبصرین کی توجہ کا مرکز رہے گا ۔ نریندر مودی انتخابات سے قبل کے آخری خطاب میں وزیراعظم کی طرح مخاطب ہوں گے یا پھر بی جے پی لیڈر کی طرح انتخابی تقریر ہوگی؟ اسے بی جے پی اور نریندر مودی کی مجبوری کہیں یا پھر کچھ اور کہ لال قلعہ ان کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ نہ ہی نگل سکتے ہیں اور نہ ہی اگل سکتے ہیں۔ قوم سے وزیراعظم کی حیثیت سے خطاب کرنے کیلئے مسلم حکمرانوں کی یادگار کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ دہلی کو دارالحکومت برقرار رکھتے ہوئے لال قلعہ کے علاوہ کوئی اور شہ نشین ایسا نہیں مل سکتا جو ملک کی عظمت اور وقار میں اضافہ کرسکے۔ لال قلعہ کے علاوہ کوئی اور عمارت دہلی میں نہیں ملے گی جس کے سر پر ملک کا ترنگا سجایا جاسکے ۔ یوم آزادی ہو یا یوم جمہوریہ میں ملک کی طاقت کا مظاہرہ دونوں لال قلعہ کی فصیل سے کئے جاتے ہیں۔ کچھ کوتا ذہن، تعصب پسند اور فرقہ پرست بھلے ہی ان نشانیوں سے نفرت کرتے رہیں لیکن مسلمانوں کو فخر ہے کہ ان کے اسلاف کی نشانی نے ترنگے کو ماتھے پر سجایا ہے۔ ترنگے کی سربلندی اور عظمت کا پاسبان مسلم حکمرانوں کی نشانی ہے۔ اسے وقت جبکہ ملک میں مسلم حکمرانوں سے منسوب یادگاروں اور عوامی مقامات کے نام تبدیل کرنے کی مہم زور و شور سے جاری ہے ۔ مغل حکمرانوں کی یادگار سے مودی کا خطاب کرنا فرقہ پرستوں کو کرارا جواب اور شکست ہے۔ اگر ہماری یادگاروں سے اتنی نفرت ہے تو کوئی اور مقام کا تعین کیوں نہیں کرتے۔ یہ کام ممکن بھی نہیں ہے اور مسلمانوں کی عظمت کے نشان پر ہی قومی پرچم کو لہرانا ہوگا۔ ویسے بھی قومی پرچم کی شان صرف لال قلعہ پر دکھائی دیتی ہے۔ کسی اور عمارت پر یہ پرچم نہیں جچے گا۔ عجیب اتفاق ہے کہ گزشتہ دنوں امیت شاہ نے اترپردیش میں مغل سرائے ریلوے جنکشن کا نام تبدیل کرتے ہوئے پنڈت دین دیال اپادھیائے رکھا۔ اس کے چند دن بعد ہی نریندر مودی 15 اگست کو مغل شہنشاہوں کی یادگار سے زور بیانی کا مظاہرہ کریں گے ۔ مغل سرائے جنکشن کو آر ایس ایس کے قائد پنڈت دین دیال کے نام پر رکھا گیا ہے۔

آخر کتنی نشانیوں کے نام تبدیل کئے جائیں گے۔ ملک کے چپہ چپہ پر ہماری عظمتوں کے نشان ہیں۔ بی جے پی نام تبدیل کرتے کرتے تھک جائے گی لیکن نشانیاں ختم نہیں ہوں گی ۔ اب تو تاج محل کو مندر قرار دے کر نام بدلنے کی مہم جاری ہے ۔ بی جے پی جس نے عوام سے گیم چینجر بننے کا دعویٰ کیا تھا، گزشتہ چار برسوں میں نیم چینجر ہوکر رہ چکی ہے ۔ جب ناموں کی تبدیلی کا سلسلہ چل پڑا ہے تو کیوں نہ امیت شاہ بھی اپنا نام تبدیل کرتے ہوئے لفظ شاہ کو نام سے ہٹادیں۔ وہ اس لئے کہ امیت شاہ کا نام ہندوستان پر حملہ کرنے والے بادشاہوں نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی سے ملتا جلتا ہے ۔ ایک ٹی وی مباحثہ میں سماج وادی پارٹی کے ترجمان نے جب یہ تجویز رکھی تو بی جے پی ، آر ایس ایس کے ترجمانوں کے علاوہ ٹی وی اینکر بھڑک اٹھے۔ اینکر نے ناراض ہوکر پوچھا کہ جن کے نام میں ’’شاہ‘‘ شامل ہے ، کیا وہ نادر شاہ اور احمد شاہ کے وارث ہیں؟ ایس پی ترجمان نے جواب دیا کہ ان کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے ایسا کہا۔ وہ تو صرف نام میں یکسانیت کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ہر سال یوم آزادی کے موقع پر مجاہدینِ آزادی اور وطن پر جان نچھاور کرنے والے شہیدوں کو یاد کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ چار برسوں سے یوم آزادی تقاریب کو زعفرانی رنگ میں رنگ دیا گیا۔ یہ قومی تقاریب بھی تعصب کا شکار ہوگئیں۔ فرقہ پرست طاقتوں نے جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کے رول اور ان کے قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے مخصوص نظریہ کے افراد کو آزادی کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ پارلیمنٹ میں ہندوستان چھوڑو تحریک کے 76 سال کی یاد میں وزیراعظم اور اپوزیشن قائدین نے مجاہدین آزادی کو خراج پیش کیا لیکن افسوس کہ کسی نے اس شخص کا نام لینا گوارا نہیں کیا

جنہوں نے Quit India ہندوستان چھوڑو کا نعرہ دیا تھا۔ اگرچہ راج گوپال چاری اور دیگر قائدین نے کئی نعرے گاندھی جی کو پیش کئے تھے لیکن گاندھی جی نے یوسف مہر علی کے Quit India نعرہ کو پسند کرتے ہوئے منظوری دی۔ یہ وہی نعرہ تھا جس نے مجاہدین آزادی کے خون میں نئی جولانی پیدا کی اور جب کبھی یہ نعرہ لگتا ، انگریزوں کے ہوش اڑجاتے ۔ گزشتہ سال ہندوستان چھوڑدو تحریک کی گولڈن جوبلی منائی گئی لیکن اس وقت بھی کسی نے یوسف مہر علی کو یاد نہیں کیا ۔ اب تو اترپردیش ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں مسلمانوں کے نام سے منسوب علاقوں اور اضلاع کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں ۔ دہلی میں سڑکوں کے نام تبدیل کئے گئے۔
لال قلعہ سے نریندر مودی کی تقریر سے یہ واضح ہوجائے گا کہ پارلیمنٹ کے انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے یا نہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں مودی حکومت نے 161 مختلف فلاحی اسکیمات کا اعلان کیا لیکن یہ اسکیمات کہاں اور کس حد تک نافذ ہیں، اس کا جواب خود وزیراعظم کو دینا ہوگا۔ گزشتہ چار برسوں میں حکومت کی تمام پروپگنڈہ مشنری وزیراعظم کے اطراف گھوم رہی ہے ۔ تمام اہم میڈیا گھرانوں کو حکومت کی بھجن منڈلی میں تبدیل کردیا گیا۔ کسی بھی چیانل میں یہ ہمت نہیں کہ وہ وزیراعظم کا نام لیکر تنقید کرسکے۔ گزشتہ دنوں ABP نیوز چیانل میں وزیراعظم کے ایک اعلان کو غلط ثابت کرنے پر سینئر صحافی پونیہ پرسرن واجپائی کو اس قدر ہراساں کیا گیا کہ انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ بتایا جاتا ہے کہ تمام میڈیا گھرانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ بھلے ہی وزراء اور وزارتوں پر تنقید کریں لیکن کوئی وزیراعظم کا نام نہ لیں۔ اس طرح ملک میں غیر معلنہ ایمرجنسی نافذ ہے۔ مودی لال قلعہ سے اپنے ان کارناموں کو بیان کرپائیںگے۔ ہجومی تشدد ، بچوں کے اغواء کے نام پر ہلاکتیں ، کسانوں کی خودکشی ، خواتین کی عصمتوں سے کھلواڑ ، مہنگائی ، کالا دھن کی واپسی ، رشوت خوری اور ملک کو لوٹ کر فرار ہونے والوں کی واپسی جیسے مسائل جوں کے توں ہیں۔ یو پی اور بہار میں ریسکیو ہوم کے دو سنگین معاملات منظر عام پر آئے جس میں برسر اقتدار پارٹی کے قائدین ملوث پائے گئے۔ بہار کے مظفر پور میں لڑکیوں کے جنسی استحصال کے معاملہ میں شوہر کے ملوث ہونے پر بہار کی خاتون وزیر کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اترپردیش کے دیوریہ میں بھی اسی طرح کا اسکام منظر عام پر آیا ہے۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی خواتین کی عصمتوں سے کھلواڑ کرنے والوں کی مذمت کرنے تیار نہیں۔

گاؤ رکھشکوں کی دہشت گردی میں تقریباً 100 بے قصور افراد کی جان چلی گئی جن میں زیادہ تر مسلم اقلیت کے افراد ہیں لیکن سب کا ساتھ سب کا وکاس کہنے والے وزیراعظم نے آج تک کارروائی توکجا مذمت تک نہیں کی۔ دوسری طرف راجیہ سبھا میں بی جے پی کا موقف مستحکم ہوچکا ہے ۔ نائب صدرنشین کے الیکشن میں این ڈی اے کے امیدوار ہری ونش نارائن سنگھ کی کامیابی نے بی جے پی کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے۔ اب جبکہ صدرنشین اور نائب صدرنشین دونوں کا تعلق بی جے پی سے ہے، کئی اہم بلز کی منظوری آسان ہوجائے گی ، جن میں طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق بل شامل ہے۔ بی جے پی کو آندھراپردیش میں تلگو دیشم کا ساتھ چھوٹ گیا لیکن تلنگانہ میں کے سی آر نے مودی کا ہاتھ تھام لیا ۔ اس طرح این ڈی اے کو ٹی آر ایس کی شکل میں نیا دوست اور حلیف مل چکا ہے ۔ ویسے بھی ٹی آر ایس گزشتہ چار برسوں سے ہی خفیہ طور پر بی جے پی کے ساتھ چل رہی ہے۔ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ، صدر جمہوریہ اور نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب میں ٹی آر ایس نے بی جے پی کی تائید کی ۔ گزشتہ دنوں لوک سبھا میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی رائے دہی سے غیر حاضر رہ کر ٹی آر ایس نے نریندر مودی حکومت کی تائید کی ۔ تلنگانہ میں سیکولر ووٹ حاصل کرتے ہوئے اقتدار تک پہنچنے والے کے سی آر نے انتخابات سے عین قبل سیاسی مقصد براری کیلئے اپنا اصلی رنگ دکھایا ہے۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بلی تھیلے کے باہر آچکی ہے۔ اقلیتوں سے ہمدردی اور سیکولرازم کے تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ بی جے پی کے ساتھ قربت سے کے سی آر کا تیسرے محاذ کا ڈرامہ بھی بے نقاب ہوگیا ۔ بی جے پی اور کانگریس کے خلاف علاقائی جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش دراصل این ڈی اے کی طرف موڑنے کی سازش دکھائی دے رہی تھی ۔ اب جبکہ کے سی آر نے مودی کا ہاتھ تھام لیا ہے ، تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی حلیف جماعت کا کیا موقف ہوگا جو کھلے عام حلیف ہونے پر فخر کا اظہار کررہی ہے۔ کیا ٹی آر ایس سے دوستی ابھی بھی جاری رہے گی؟ نوجوان شاعر حامد بھنساولی نے کیا خوب کہا ہے؎
آزادیٔ وطن میں ہمارا لہو بھی ہے
جو کم نظر ہیں ان کو نظر کیسے آئے گا