محمد ریاض احمد
ہندوستان میں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت دراصل آر ایس ایس ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ چلائی جارہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے کابینی رفقاء لاکھ مرتبہ کہہ دیں کہ حکومت کسی کے ریموٹ کنٹرول سے نہیں چل رہی ہے اور نہ کوئی تنظیم اس کے امور میں مداخلت کررہی ہے اس کے باوجود ایک سادہ سیدھا یعنی سادہ ذہن ہندوستانی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ مودی حکومت پر آر ایس ایس کا مکمل کنٹرول ہے۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے اشاروں پر وزیر اعظم سے لے کر تمام کابینی رفقاء اور بی جے پی قائدین ناچتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ آر ایس ایس ان لوگوں سے بیٹھنے کے لئے کہے گی تو وہ اس کی حکم کی تابعداری میں فوراً بیٹھ جائیں گے۔ اگر آر ایس ایس کھڑے رہنے کی ہدایت دے گی تو وہ لوگ فوری کھڑے ہو جانے میں اپنی عافیت سمجھیں گے۔ آر ایس ایس خود کو قوم پرست کہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ فرقہ پرست ہے اور یہ بات ہر محب وطن ہندوستانی ببانگ دہل کہہ سکتا ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے یہاں تک کہہ دیا کہ آر ایس ایس ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ آج ملک میں جو فرقہ پرستی، زعفرانی دہشت گردی دکھائی دے رہی ہے، تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے جو اقدامات کئے جارہے ہیں تاریخ کو جس طرح مسخ کرنے کے ایجنڈہ پر کام ہو رہا ہے۔ سیکولر اقدار کی جس انداز میں دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اقلیتوں کا جیسا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، گرجا گھروں پر حملے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی، ان کے جان و مال پر حملے نے فرقہ وارانہ فسادات، گھر واپسی کے نام پر ملک میں بے چینی کی فضاء کا پیدا کرنا، گاؤکشی پر پابندی، مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ پر واویلا مچانا یہ سب آر ایس ایس کی ایما پر ہی ہو رہا ہے۔ ورنہ وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل جیسی اس کی ذیلی تنظیموں کی مجال کہ کر وہ چوں و چرا بھی کرسکیں۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے کہ نریندر مودی اور ان کے کابینی رفقاء لاکھ انکار کریں یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی حکومت آر ایس ایس کے اشارے پر کام کررہی ہے۔ اس کا منہ بولتا ثبوت حال ہی میں اختتام پذیر آر ایس ایس کی تین روزہ بیٹھک ہے جس میں آر ایس ایس قیادت نے وزیر اعظم نریندر مودی کو جہاں ڈھیر ساری خفیہ ہدایات جاری کی وہیں پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا بھی مشورہ دیا۔ موہن بھاگوت نے مودی حکومت سے کہا اپنے بھائی ’’پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیںآر ایس ایس قائدین اور مودی حکومت کے تین روزہ اجلاس نے سارے ملک اور دنیا کو پیام دیا ہے کہ حکومت ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ چلائی جارہی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ ایک کٹھ پتلی حکومت ہے۔ کمیونسٹ لیڈر سیتارام یچوری کا ایک مضمون نظروں سے گذرا۔ اس میں انہوں نے صاف طور پر کہا کہ آر ایس ایس اور حکومت کا اجلاس اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی اور کچھ نہیں آر ایس ایس کا ایک سیاسی ونگ ہے۔ اس اجلاس سے یہ بھی سوالات ابھر آتے ہیں کہ دستور ہند کے تحت اپنی ذمہ داریوں کا حلف لینے والے لوگ کس طرح آر ایس ایس کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کا عہد کرسکتے ہیں۔ حالانکہ آر ایس ایس جمہوری ہندوستان اور ہمارے سیکولر ملک کی شبیہ اپنے فاشسٹ ’’ہندو راشٹرا‘‘ کے نظریات کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ نریندر مودی ہمیشہ سابق یو پی اے حکومت پر الزام عائد کرتے رہے کہ وہ ایک ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ چلائی جارہی ہے، لیکن دیکھا جائے تو ان کی حکومت خود حقیقت میں آر ایس ایس کے ریموٹ کنٹرول پر چل رہی ہے۔ اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک کے پہلے وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل نے مہاتما گاندھی کے ایک ہندو دہشت گرد ناتھورام گوڈسے کے ہاتھوں قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی عائد کردی تھی۔ 4 فروری 1948ء کو جاری کردہ ایک بیان میں سردار پٹیل نے کچھ یوں کہا تھا۔ ’’سنگھ کی قابل اعتراض اور نقصان دہ سرگرمیاں بنا رکاوٹ مسلسل جاری ہیں،
سنگھ کی سرگرمیوں سے شہ پاکر تشدد برپا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور سنگھ کی ان ہی سرگرمیوں کے کئی افراد شکار ہوئے ہیں اور اس کی تازہ مثال گاندھی جی کا قتل ہے۔ سنگھ نے ایک انتہائی قیمتی زندگی کا خاتمہ کردیا‘‘۔ اس وقت آر ایس ایس نے پابندی اٹھانے کے لئے حکومت سے بات چیت کی درخواست کی تھی۔ 4 نومبر 1948ء کو اس مسئلہ پر آر ایس ایس سربراہ ایم ایس گوالکر سے بات چیت کے بعد سردار پٹیل نے ایک پریس نوٹ جاری کرتے ہوئے آر ایس ایس پر سے پابندی ہٹانے سے انکار کردیا تھا، لیکن 11 جولائی 1949ء میں اس وقت پابندی اٹھالی گئی جب اس نے حکومت کی تمام شرائط منظور کرتے ہوئے اس بات کو قبول کیا تھا کہ وہ صرف اور صرف ایک تہذیبی و ثقافتی تنظیم کی حیثیت سے کام کرے گی۔ خفیہ کارروائیوں اور تشدد سے دور رہے گی، لیکن افسوس کے آج آر ایس ایس نے حکومت کے ساتھ طئے پائے تمام شرائط کی دھجیاں اڑادی ہیں۔ یچوری مزید لکھتے ہیں کہ آر ایس ایس نے خود کو سیاسی طور پر مستحکم کرنے اور اپنے مخالف ہند نظریات کے باعث بار بار پابندیوں سے بچنے کی خاطر اپنے ایک سیاسی بازد کی تلاش شروع کردی۔ 1951ء میں اس نے نہرو کابینہ سے استعفی دینے والے شیام پرساد مکرجی کی مدد کے لئے اپنے کیڈر کو روانہ کیا۔ شیام پرساد مکرجی نے نہرو کابینہ سے استعفیٰ دے کر بھارتیہ جن سنگھ شروع کی تھی۔ آر ایس ایس نے جس کیڈر کو شیام پرساد مکرجی کی مدد کے لئے روانہ کیا ان میں دین دیال اپادھیائے، اٹل بہاری واجپائی، ایل کے اڈوانی اور ایس ایس بھنڈاری شامل تھے۔ 1977ء میں جن سنگھ جنتا پارٹی میں ضم ہوگئی اور اس کے قائدین مرکزی حکومت میں اہم وزارتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ دراصل اس وقت ایمرجنسی نافذ کرنے کے باعث اندرا گاندھی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جنتا پارٹی کی حکومت دوہری رکنیت کے مسئلہ پر زوال سے دوچار ہوگئی کیونکہ جن سنگھ کے وزراء نے دوہری رکنیت ختم کرنے سے انکار کردیا تھا اور آر ایس ایس چھوڑنے سے بھی وہ انکار کرچکے تھے اس طرح جن سنگھ کے ان قائدین نے جنتا پارٹی سے علیحدہ ہوکر بی جے پی کی تشکیل عمل میں لائی تب سے ہی بی جے پی آر ایس ایس کے ایک بازو اور اس کے سیاسی ونگ کی حیثیت سے کام کررہی ہے۔ سیتارام یچوری مزید لکھتے ہیں کہ مودی حکومت نے عوام سے بے شمار وعدے کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا، لیکن اب اس کی تمام تر توجہ آر ایس ایس کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے پر مرکوز ہوگئی ہے،
لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ عوام نے اسے اقتدار آر ایس ایس ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے لئے نہیں بلکہ اپنے مسائل بالخصوص غربت، مہنگائی، بدعنوانی، رشوت خوری، ناانصافی، بیروزگاری کے حل اور بیرونی ملک ، غیر قانونی طور پر جمع کردہ لاکھوں کروڑ روپے سیاہ دولت واپس لانے کے لئے عطا کیا تھا۔ بی جے پی حکومت پر آر ایس ایس ایجنڈہ پر عمل آوری کا الزام یوں ہی عائد نہیں کیا جارہا ہے بلکہ اس نے دارالحکومت دہلی میں بے شمار سڑکوں کے نام تبدیل کرنے کی بجائے اورنگ زیب روڈ کو نشانہ بناتے ہوئے اسے سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سے موسوم کردیا۔ اس کا مقصد اے پی جے عبدالکلام کو خراج عقیدت پیش کرنا نہیں تھا بلکہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب سے انتقام لینا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اورنگ زیب ہندوستان کو اکھنڈ بھارت بنانا چاہتے تھے اور اکھنڈ بھارت (متحدہ ہندوستان) کا نظریہ بھی ان ہی کی دین ہے۔ بی جے پی حکومت میں ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کے ایک ملزم یعقوب میمن کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر پھانسی دے دی گئی، لیکن شہادت بابری مسجد کے بعد ممبئی میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے ان کے جان و مال کو لوٹنے والوں کی سری کرشنا کمیشن کی نشاندہی کے باوجود کسی مجرم کسی قاتل کو پھانسی نہیں دی گئی۔ یہ آر ایس ایس ایجنڈہ نہیں تو اور کیا ہے۔ ملک کے نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کو اس بات کے لئے نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے مسئلہ کو ہندوستان کا مسئلہ قرار دیا۔ ہندوستان میں 180 ملین مسلمان ہیں لیکن انہیں زندگی کے ہر شعبہ میں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ یہ بھی آر ایس ایس کا ایجنڈہ ہے حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں بے شمار مسلمانوں نے اپنی زندگیاں قربان کردیں ملک کے لئے جان و مال قربان کرنے والوں میں مسلمانوں کا مقابلہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ہمیشہ انسانیت پرامن بقائے باہم کے نظریہ پر عمل کیا گیا لیکن آزادی کے بعد فرقہ پرست ہندوستان کو تہذیبی پیشرفت کی بلندیوں پر پہنچنے سے روک رہے ہیں۔ اس طرح بی جے پی حکومت آیر ایس ایس کے ایجنڈہ پر عمل کرتے ہوئے قوم کو فرقہ پرستی بدامنی کے اندھیروں میں ڈھکیل رہی ہے اس طرح وہ عوام کی بدخدمتی کررہی ہے۔ایسا کرنا کسی بھی طرح ملک اور عوام کے حق میں نہیں۔
mryaz2002@yahoo.com