آرایس ایس۔بی جے پی اجلاس

مت جلاؤ نفرتوں کے سرد موسم میں الاؤ
ایک بھی چنگاری اڑی تو بستیاں جل جائیں گے
آرایس ایس۔بی جے پی اجلاس
بی جے پی کومرکز میں اقتدار حاصل کئے ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ گذرچکاہے۔ جس وقت پارٹی نے مرکز میں حکومت بنائی تھی اس وقت سماج کے تقریبا تمام طبقات کو یہ امید بندھائی گئی تھی کہ حکومت ہر طبقہ کے ساتھ انصاف کریگی اور ہر گوشے کی ترقی کیلئے ایسے اقدامات کریگی جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں مل پائیگی۔ نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد آر ایس ایس اور اس کی ہم قبیل تنظیموں نے بھی اپنے منصوبوں کی تکمیل کاخواب دیکھناشروع کردیا تھا۔ فرقہ پرست اور فاشسٹ نظریات رکھنے والی تنظیمیں اور افراد الگ سے سرگرم ہوگئے تھے ۔ اشتعال انگیز اور زہریلے بیانات کے ذریعہ سے الگ ملک کا ماحول پراگندہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ ایسی کوششوں کا مقصد ملک کی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو احساس کمتری کاشکار کرنا اور انہیں ہراساں کرتے ہوئے حکومت کو آر ایس ایس کے مقاصد کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک میں فرقہ پرستوں کے عزائم بلند ہوگئے ہیںاور ان کا وہ کھلے عام اظہار بھی کر رہے ہیں۔ حکومت ایسی کوششوں کو روکنے یا ایسے عناصر پر روک لگانے کے موقف میں نظر نہیں آتی ۔ ملک کے دستور میں تبدیلی تک کی باتیں شروع ہوگئی تھیں اور یہ سب کچھ آر ایس ایس کی ایما پر ہی اور اسی کے مقاصد و ارادوںکی تکمیل کیلئے ہورہا تھا۔ اس سے انکار کی شائد ہی کوئی گنجائش نکل سکے ۔ ایک سال سے کچھ زیادہ وقت میں ایسالگتا ہے کہ آر ایس ایس کے مقاصد اتنی تیزی سے تکمیل کی سمت نہیں جا سکے جس کی اسے امید تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض موقعوںپر آر ایس ایس کی جانب سے حکومت پر تنقیدیں کی گئیں تھیں یا پھر ناراضگی کا اظہار کیا گیاتھا۔ مودی حکومت کو ملک کے عوام میں حکومت کے تعلق سے پائی جانے والی ناراضگی سے زیادہ آر ایس ایس کی خوشنودی کی فکر ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اس نے آر ایس ایس کو راضی کرنے کیلئے اس کے ساتھ اجلاس منعقدکرنے کافیصلہ کیا ہے۔ اس اجلاس میں حکومت اپنی کارکردگی کارپورٹ کارڈ آر ایس ایس کے ذمہ داروںکے سامنے پیش کرتے ہوئے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرنا چاہتی ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس کو حکومت کی جانب سے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کی جانے والی کوششوں پر ابھی پورا اطمینان نہیںہے ۔شائد یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت پر اپنے طور پر دباؤ ڈالتی رہی تھی۔ وقفہ وقفہ سے حکومت کی کارکردگی پرناراضگی کا اظہار کرنا بھی شائد اسی حکمت عملی کا حصہ تھا ۔بی جے پی حکومت ایسا لگتا ہے کہ زیادہ وقت تک آر ایس ایس کی تنقیدوں اور ناراضگی کو برداشت کرنے کے موقف میں نہیںہے ۔ یہی وجہ لگتی ہے کہ اس نے آر ایس ایس کے اعلی قائدین کے ساتھ اجلاس منعقد کرکے انہیںمطمئن کرنے کی کوشش کا فیصلہ کیا ہے۔ویسے تو وقفہ وقفہ سے آر ایس ایس کی اعلی قیادت کے ساتھ بی جے پی کے قائدین کا اجلاس ہوتا رہا ہے جس میں پارٹی کے پروگرامس اور پالیسیوں پر تبادلہ خیال ہوتا ہے ۔ تاہم اب بی جے پی اقتدار پر ہے اور اسے آر ایس ایس کی بجائے ملک کے عوام کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔ اسے آر ایس ایس کی ناراضگی اور تنقیدوں کی بجائے ملک کے عوام کی ناراضگی کی فکر ہونی چاہئے ۔اسے عوام کو سہولیات پہونچانے اور انہیں مسائل سے نجات دلانے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ آر ایس یس کوخوش کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہیکہ آر ایس ایس در اصل بی جے پی کا ریموٹ کنٹرول ہے لیکن ملک کے عوام نے آر ایس ایس کے حق میں نہیں بلکہ بی جے پی کو ووٹ دیاہے اور ان کے سامنے آر ایس ایس کے مقاصد نہیں بلکہ اپنے مسائل تھے ۔ انہیں مسائل کے حل کی امید کرتے ہوئے عوام نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا ۔
ملک کوآج کئی مسائل کاسامنا ہے۔سرحدات پر کشیدگی پائی جاتی ہے ۔ملک میں دہشت گردانہ حملے ہورہے ہیں۔ مہنگائی ہے کہ مسلسل بڑھتی جارہی ہے ۔ دال ‘ پیاز ‘ چاول غرض ضرورت کی ہر شئے مہینگی ہوتی جار ہی ہے اور عوام مہنگائی کی مار سہنے پر مجبور ہیں۔ حکومت ان کی مدد کرنے کے موقف میں نظر نہیںآتی اور نہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس سلسلہ میںکچھ کرنا چاہتی ہے ۔ وہ تو صرف کارپوریٹ طبقہ اور آر ایس ایس کی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دومیں مصروف ہے ۔ حکومت کوچاہئے کہ ملک کے عوام کو درپیش مسائل پر زیادہ توجہ دے ۔ آر ایس ایس کے سامنے جوابدہی کا احساس پیدا کرنے کی بجائے ملک کے عوام کے سامنے اسے اپنا رپورٹ کارڈ پیش کرناچاہئے۔اسے ملک کے عوام کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ خود میں عوامی رائے کی اہمیت کا احساس پیدا کرسکے ۔