جشن ریختہ نے بتایا کہ نہ صرف اُردو زندہ ہے بلکہ دھوم بھی مچارہی ہے

نئی دہلی۔جشن ریختہ کا جشن جمعہ کے روز انڈیا گیٹ کے قریب میں واقعہ میجر دھیان چند اسٹیڈیم میں شروع ہوا۔ درالحکومت دہلی میں منائے جانے والے جشن ریختہ تہوار کے چوتھے ایڈیشن سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ دم توڑتی اُردو زبان اپنے پورم دم خم کے ساتھ دوبارہ کھڑی ہوئی ہے۔

گلوکاروں‘ افسانہ نگاروں اور کہانی کاروں کی ایک عظیم اجتماع جشن ریختہ کے موقع پر دیکھنے کو ملا۔جنھوں نے اپنی اُردو شاعری‘ کہانیوں‘ غزلوں اور قوالی سے شائقین کو دل جیت لیا۔جشن ریختہ میں چا ر بزم سجائے گئے ‘ محفل کھانا‘ بزم خیال ‘ دیار اظہار اور کنج سکون۔ اُردو شائقین نے اپنے ذائقہ کے مطابق بزم میں شرکت کی۔

اداکار اوم بھٹکار نے ’’ اس بے وفا کا شہر ہے اور وقتِ شام ہے۔ ایسے میں زندہ رہنا ہمت کاکام ہے‘‘ سنا کر شائقین کو محضوظ کیا۔ٹی او ائی کی خبر کے مطابق یہاں پر اُردوپروگرام مںی راج بینڈ پرواز انگریزی گیت کار تانیہ ویلس کی غزل پیش کی جبکہ جوان ایلیا کو لکھے گئے مکتوب پر مشتمل داستان گوئی اور ڈرامہ کے ذریعہ خراج پیش کیا ۔

کتھک ڈانسر اور کہانی نویس نیلش مشرا کورٹیسن پراجکٹ میں مرزا غالب اور ان کی معشوقہ نواب جہاں کی اردو شاعری او رڈانس کے متعلق کہانی پیش کرنے کے لئے ائے۔ائی ائی ٹی فارغ سنجے سراف جس نے اپنی ذاتی دلچسپی سے اُردو زبان کو فروغ دینے کے لئے ریختہ کا2013 میں انعقاد عمل میں لایا۔

https://www.youtube.com/watch?v=tTwsizHWpao

ان کا منشاء ہے کہ اُردو کی اہم لٹریچر ان لائن لایاجاسکے بالخصوص ان کے لئے جن لوگوں کی اُردو اسکرپٹ پر گرفت نہیں ہے۔ ریختہ فاونڈیشن نے 30,000غزلیں اور نظمیں جو 2,500اُردو رائٹرس پر مشتمل ہیں کو ان لائن لانے کاکام کیاہے او ران غزلوں کے مشکل اُردو الفاظ کو سمجھے کے لئے مذکورہ الفاظ کا ہندی اور انگریزی ترجمہ بھی ناظرین کے لئے ایک کلک پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے

۔سراف نے تین ہفتوں کا اُردو کے لئے ان لائن تربیتی کورسس لانچ کیا ہے۔ ٹی او ائی کی رپورٹ کے مطابق اس کے لئے 90فیصد درخواست غیرمسلم ہیں