۔2019 میں حلقہ پارلیمان سکندرآباد سے وزیراعظم مودی امیدوار؟

حیدرآباد ۔ 29 ستمبر (سیاست نیوز) جنوبی ہند میں طاقت آزمائی میں ناکامی کا شکار بی جے پی ایک نئے طریقہ سے علاقہ میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے۔ علاقائی جماعتوں کے مضبوط موقف والے جنوبی حصہ میں پھوٹ ڈالو حکومت کرو کی پالیسی کے بجائے ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ ساتھ چلو اور خاتمہ کرو کی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ جنوبی ہند میں فی الحال بی جے پی کیلئے ایک سہارے کی ضرورت تھی جس کی کمی کو تلنگانہ راشٹرا سمیتی پورا کررہی ہے۔ وزیراعظم کی ہر بات میں رضامندی اور جی حضوری کرنے والے سابق وزیر اعلیٰ اب تلنگانہ سے مودی جی کا رشتہ جوڑنے جارہے ہیں اور انہیں حلقہ پارلیمان سکندرآباد سے مقابلہ کرنے کی پیشکش بھی کرچکے ہیں۔ دہلی میں چل رہی انتخابی سرگرمیاں اور جاری انتخابی موضوعات میں سکندرآباد بحث کا حصہ بنا ہوا ہے۔ جنوبی ہند میں اپنی سیاسی سازشوں و عیار پالیسیوں کیلئے سابق وزیراعلیٰ بی جے پی کے ایک آلہ کار اور سیاسی مہرہ ہونے کا الزام بھی سر لے چکے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق حلقہ پارلیمان سکندرآباد سے منتخب نمائندہ سابق مرکزی وزیر بنڈارو دتاتریہ کو اسمبلی حلقہ سے مقابلہ کروانے کیلئے راضی کرلیا گیا ہے اور ان کے حلقہ کا انتخاب بھی کرلیا گیا ہے۔ امکان ہیکہ دتاتریہ حلقہ اسمبلی صنعت نگر سے مقابلہ کریں گے۔ تلنگانہ کے سابق وزیراعلیٰ جو ہرموقع پر دہلی کا دل بہلاتے رہتے ہیں اور ایسا کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ دہلی کو خوش کرنے کا وہ محض موقع تلاش کرتے ہیں۔ اب راست وزیر اعظم کو تلنگانہ کے مضبوط ترین حلقہ سے انتخابی مقابلہ کی دعوت دے دی ہے حالانکہ بی جے پی بھی کچھ ایسے موقع کے انتظار میں تھی۔ وزیراعظم کی جانب سے اس حلقہ سے مقابلہ جنوبی ہند میں بی جے پی کیلئے ایک بہترین موقع ثابت ہوگا۔ وزیراعظم کے من کی بات کو بی جے پی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے ذریعہ جنوبی ہند میں پہنچائے گی چونکہ بی جے پی کو ایسا کوئی موقع نہیں تھا کہ وہ کسی مقام پر ٹھہر سکے حالانکہ کرناٹک میں جیت کیلئے جی جان لگانے والے بی جے پی کا اقتدار پر قبضہ کرنا محض خواب ہی رہ چکا ہے اور کیرالا میں بقاء کی جدوجہد میں جٹی بی جے پی کیلئے ٹاملناڈو میں لاکھ کوششوں کے باوجود سوائے مخالفت کے کچھ اور حاصل نہیں ہوا اوراین ڈی اے کے حصہ کے طور پر موجود آندھراپردیش کی تلگودیشم پارٹی نے بھی عوامی مفادات اور مسلسل وعدہ خلافی کو دیکھتے ہوئے این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ہر طرف مخالفت، ناراضگی و نفرت کا سامنا کرنے والی بی جے پی کو تلنگانہ مل گیا۔ سکندرآباد سے مقابلہ کا ارادہ اور کامیابی ایک طرف لیکن دوسری طرف پارٹی جنوبی ہند میں مضبوط موقف حاصل کرنے اس حلقہ کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کریگی۔ اس پیشکش کے بعد بی جے پی کے حلقوں میں خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ انہیں اور مزید خوش کرنے کیلئے سابق ریاستی وزیراعلیٰ نے سابق وزیراعظم کے مجسمہ کی تعمیر کا اعلان بھی کردیا۔ من کی بات کو من میں بسانے والے سابق وزیراعلیٰ کے اقدامات اور بی جے پی سے قربت کہیں ان کے اصل ارادوں اور اصل چہرے کی عکاسی تو نہیں؟۔