یہا ں پر ہندوستان او رپاکستان کے طلبہ ایک کلاس روم میں پڑھائی کررہے ہیں۔

نئی دہلی۔تصور کریں کہ ہندوستان او رپاکستان کے طلبہ ایک ہی نصاب او رٹیچرسے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان کے ساتھی جس میں بنگلہ دیش ‘ افغانستان ‘ سری لنکا ‘ نیپال اور بھوٹان کے طلبہ ہیں۔

بین ملکی کلچر پر مشتمل یہ کلاس روم قلب دہلی کے ڈپلومیٹ کوارٹر میں قائم کیاگیا ہے ‘اس غیر معمولی تعاون کے لئے ساوتھ ایشیا ء یونیورسٹی کے شکر گذار ہیں۔

اونچی امیدوں اور کچھ پستی کے ساتھ شروع کی گئی مذکورہ ساوتھ ایشیاء یونیورسٹی جو کہ ماسٹرس اور ڈاکٹرس کی ڈگری کی پیش کش کرتی ہے نے اپنے ابتدائی کوشش میں دقیانوسی سونچ کو آگے بڑھ کر توڑتے ہوئے علاقے کے نوجوانوں کے ذہنوں میں ایک پل تیار کرنے کاکام کیاہے۔

وہیں ہندوستا ن نے کیمپس کی میزبانی کی ذمہ داری لی ہے اور اس کا نصف خرچ بھی برداشت کررہا ہے ۔

کم سے کم آدھے سے زائد طلبہ بیرون ملک سے ائے ہوئے ہیں۔ اس سال کے کنوکیشن میں نئے گریڈس کے جس میں بارہ افغانستان ‘ سترہ بنگلہ دیش‘ گیارہ نیپال ‘ اور پانچ پانچ پاکستان و بھوٹان سے شامل ہوئے ہیں جبکہ ایک سری لنکا سے ہے اور 99ہندوستان کے طلبہ ہیں۔

یونیورسٹی کے نائب صدر وسماجی سائنس کے ڈین سسنکا پیریرا نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ’’ یہ ایک نظریاتی پراجکٹ ہے‘ تاکہ ساوتھ ایشیائی غور وفکر کو شامل کیاجاسکے‘ کلچرل رابطوں کو تقویت دی جاسکے‘ وہ بھی بناء قومی وریاستی رکاوٹوں کے ‘‘۔

حقیقت میں یہ آسان کام نہیں ہے۔ یہاں پر طلبہ ‘ فیکلٹی اور اسٹاف کے لئے ایک خصوصی ایس اے یو ویزا تشکیل دیاگیا ہے ‘ مگر دستاویزات کے حصول میں مسلسل تاخیر ہورہی ہے ‘ بالخصوص پاکستانیوں کے لئے۔

اس سال چھ پاکستانی طلبہ جن کے داخلوں کو یونیورسٹی نے قبول کیا ہے جو ویزا نہیں ملا‘ جس کی وجہہ سے ان کے داحلوں کو منسوخ کرنا پڑا۔مگر ان تمام دفتر ی رکاوٹوں کے باوجود پاکستانی طالب علم ہیرا ہاشمی نے کہاکہ اس کو رحمدلی او رہمدردی کا بہترین تجربہ ہوا ہے ۔

جب وہ لیور کے مرض سے اسپتال میں شریک تھی‘ ان کی وارڈ میٹ جو ایک خواتین ہے او رہیرا کی ماں کی عمر کی ہے نے اس سے پوچھا تھاکہ تم اکیلی کیوں ہے اور تمہارے گھر والے کہاں ہیں۔

جب ہیرا نے اس وارڈ میٹ کو بتایا تھا کہ پاکستان جانے کا خرچ بہت ہے تو انہوں نے جواب میں کہاتھا کہ بیٹا اگر تمہیں اپنے گھر والوں کے پاس جانا ہے توپیسوں کی فکر نہ کریں۔

ان کی پیشکش نے مجھے رلادیاتھا‘‘۔ پیریرا نے کہاکہ ’’ کچھ ہندوستانی طلبہ نے اس وقت نرمی دیکھائی تھی جب شاعر فیض احمد فیض پر سمینار منعقد کیاگیاتھا‘ جو پاکستانی شاعر تھے‘‘