یونیفارم سیول کوڈ پر وسیع پیمانے کے تبادلہ خیال کا قانونی پینل خواہاں‘ 6اپریل ادخال کی آخری تاریخ

ہندوستان میںیونیفارم سیول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کے مقصد سے اٹھ ماہ قبل ایک سوالیہ پرچہ جاری کیاگیاتھا‘ جس پر ستر ہزار جواب داخل کئے گئے ‘ مذکورہ لا ء کمیشن نے تمام اداروں او رذمہ داران سے اس حساس پر رائے اور ’’ تفصیلات پر مشتمل ادخال‘‘ کے لئے مدعو کیاہے۔لاء کمیشن نے جولائی2016میں ایک پینل تشکیل دیا اور کہاتھا کہ رپورٹ داخل کرے۔

لاء کمیشن کی ویب سائیڈ پر جاری ایک سرکولر کے مطابق’’ کوئی بھی فرد/تنظیم( سرکاری اور غیرسرکاری) مشاورت/بحث/کارگرد دستاویزات جو یونیفارم سیول کوڈ پر مشتمل ہوں( سوائے تین طلاق کے جو پارلیمنٹ میں زیرالتوا ہے)کے زاویے سے ممبر سکریٹری لاء کمیشن آف انڈیا کو داخل کرسکتے ہیں‘‘۔

اس قسم کے تمام ادخال کے لئے 6اپریل آخری تاریخ مقرر کی گئی ہے ۔ یونیفارم سیول کوڈ عمومی طورپر تما م پرسنل قوانین کو ایک سکیولر قانون میں تبدیل کرنا ہے جو تمام شہریوں پر مذہب اور طبقے سے بالاتر ہوکر لاگوہوگا۔دستور زیادہ تر مذاہب کو اپنے شادی‘ طلاق اوروارثت کے معاملات میں ذاتی سیول کوڈ کے ذریعہ ترمیم کا موقع فراہم کرتا ہے۔

قبل ازیں 16نکاتی سوال نامہ یوسی سی کو شامل کرنے یاہٹانے کے عنوان سے جاری کیاگیا تھا ‘ اگر تمام مذہب کے ماننے والے انفرادی قانونی کے تحت طلاق دیں گے اور اگر یوسی سی نافذ ہوگیا تو جنسی مساوات یقینی ہوجائیں گے‘ کچھ اس طرح کے سوالات بھی اس میں شامل تھے۔

اس میں تین طلاق‘ عورت کے لئے ایک سے زائد مرداور کثرت ازدواج کے متعلق بھی رائے مانگی گئی ۔

بڑے پیمانے پر رائے کے متعلق فیصلہ اس وقت کارگرد ثابت ہوا جب تین ماہ لاء کمیشن چیرمن جسٹس بی ایس چوہان نے اس بات کی طرف اشارہ دیا کہ یو سی سی کوئی معمولی کام نہیں ہے اور تجویز پیش کی کہ بہترین ذریعہ پرسنل لاء میں حسب ضرورت قوانین کی ترمیم کی جائے تاکہ جنسی امتیاز کو ختم کیاجاسکے

۔پینل کے مطابق غیرمعمولی ردعمل سوالات پر حاصل ہوا ہے۔تاہم ردعمل کاجائزہ لینے کے بعد کمیشن نے تمام ذمہ داران سے ’’ تفصیلی ادخال‘‘ مانگا ہے۔

دستور کے باہر جاکر پرسنل میں کسی قسم کی مداخلت کا بھروسہ دلاتے ہوئے چوہان نے لاء کالج میں یوسی سی سے خطاب کے دوران کہا کہ’’ہم اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کررہے ہیں جوکچھ بھی ہم تجویزپیش کریں گے وہ دستوری قوانین کی کسوٹی پر رہے گا۔

جسٹس چوہان نے کہاکہ ’’ ملک کے تنوع کو پیش نظر رکھتے ہوئے اجتماعات لانے کی ہماری پوری کوشش ہے۔

اگر ہم یونیفارم سیول کوڈ کے خطوط پر قانون نہیں لاسکے تو ہم یقینی طور پر امتیاز کو ختم کردیں۔جو انفرادیت میںیکسانیت ثابت ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ قانون مختلف مذہب کے مختلف ہونگے مگر ہم جنسی انصاف کے ذریعہ امتیاز کو ختم کردیں گے‘‘