یوم تاسیس تلنگانہ حیدرآبادی تہذیب کا مظہر ہوگا

اے پی ؍ تلنگانہ ڈائری خیراللہ بیگ
یوم تاسیس تلنگانہ تقاریب میں حیدرآبادی تہذیب کا خاص خیال رکھتے ہوئے منائے جانے والے جشن میں نئی ریاست کے عوام کی اُمنگیں و اُمیدیں بھی شامل رہیں گی۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد عوام نے یہ اندازہ کیا تھا کہ ہر گھر سے ترقی و خوشحالی کی مہک آنے لگے گی۔ اندھیروں کا دخل نہیں ہوگا۔ ٹی آر ایس حکومت نے اُجالا دینے کا وعدہ کیا تھا اس میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ ماہ مئی میں شدت کی گرمی کے دوران برقی کٹوتی کے امکانات کو کم سے کم کرتے ہوئے شہریوں کو گرمی کی شدت کا احساس ہونے نہیں دیا۔ سرکاری تقاریب کا 2 تا 7 جون آغاز ہوگا جس میں تلنگانہ کلچر کی بھی جھلکیاں ہوں گی خاص کر سابق ریاست حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب کو نمایاں کیا جارہا ہے۔ 2 جون کو پریڈ گراؤنڈ پر تلنگانہ کا شاندار جشن ہوگا۔ 7 جون کو ٹینک بینڈ پر ثقافتی جھلکیاں نکالی جائیں گی۔ حسین ساگر کے دامن میں تلنگانہ تحریک کو پروان چڑھانے والوں کی یاد بھی منائی جائے گی۔ مارچ 2011 ء میں ملین مارچ کے دوران یہاں علیحدہ ریاست تلنگانہ کے حامیوں کا زبردست اجتماع منعقد ہوا تھا۔ شہر حیدرآباد کو اس جشن کا مرکز بنایا جارہا ہے۔ 25 مختلف مقامات پر روزانہ ثقافتی پروگرام منعقد ہوں گے۔ تقریباً 550 فنکار تلنگانہ سمکرتیکا سردھی، سرکاری ثقافتی ٹروپس بھی تلنگانہ ریاست کے قیام کو فتح کی علامت کے طور پر منائیں گے۔ تلنگانہ تحریک میں اُردو زبان کا اہم رول رہا ہے۔ مگر حکومت نے اس زبان پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ صرف پاکستان کے مشہور غزل گلوکار غلام علی 5 جون کو چارمینار پر غزلوں کا پروگرام پیش کریں گے۔ ان کے علاوہ ہندوستانی کلاسیکی کے استاد رضا علی خاں بھی مظاہرہ کریں گے۔ پیپلز پلازا پر دعوت حیدرآباد کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے نامور فلم ساز شیام بنیگل اور ایس نرسنگ راؤ کی فلموں کی للت کلا تھورانم تھیٹر پر نمائش کی جائے گی۔ یوم تاسیس کے موقع پر عوام کو خاص کر پرانے شہر کے عوام کے لئے حکومت نے بظاہر اہم پروگرام مرتب کئے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے اعتماد میں لینے کے لئے حکمراں پارٹی کی یہ ایک حکمت عملی ہے کہ پرانے شہر کو ترقی دیتے ہوئے مسلمانوں کو حکومت کے قریب کیا جائے۔ اس کے لئے اقلیتی بہبود کی خاطر حکومت نے 1,034 کروڑ روپئے اور 1,105 کروڑ روپئے علی الترتیب سال 2014-15 ء ، سال 2015-16 ء کے لئے مختص کئے ہیں۔ مسلم طلباء کو اسکالرشپ دینے اور اعلیٰ تعلیم کے لئے 10 لاکھ روپئے تک مالی اعانت کا بھی انتظام کیا جارہا ہے۔ الغرض تلنگانہ ریاست کے قیام کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ٹی آر ایس حکومت خاص کر چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ اپنے منصوبوں اور پروگراموں کی جھلکیاں پیش کرتے ہوئے آنے والے برسوں میں ریاست کی ترقی سے تیار کردہ خاکہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف تلنگانہ کا جشن دوسری طرف آندھراپردیش میں تلگودیشم حکومت نے اپنے نئے دارالحکومت کے لئے 6 جون کو بھومی پوجا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ تلگودیشم مہاناڈو میں صدر تلگودیشم چندرابابو نائیڈو کی ترجیحات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنھیں اپنی ریاست کی نئی صورت گری اور نئے دارالحکومت کی تعمیر کے لئے کئی مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ نائیڈو نے پارٹی کو تین مختلف محاذوں پر متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک آندھراپردیش دوم تلنگانہ اور سوم مرکزی سطح پر تلگو عوام کی بہبود سے واقف کرایا جائے گا۔ تلگودیشم کو دونوں ریاستوں میں قدم جمانے کے مواقع ہیں۔ اپنی ریاست آندھراپردیش کے ساتھ تلنگانہ میں پارٹی کی جڑوں کو مضبوط کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ مرکز میں چندرابابو نائیڈو کا نام غیر معروف نہیں ہے۔ این ڈی اے کی حلیف ہونے کے ساتھ ساتھ انھیں بادشاہ گر کا بھی موقف حاصل ہے مگر وہ اس مرتبہ پارٹی سے انحراف کرنے والے قائدین کو روکنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ ٹی آر ایس میں تلگودیشم کے بعض ارکان کی شمولیت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ایک لیڈر کے چلے جانے سے پارٹی کو 100 نئے لیڈرس مل جاتے ہیں مگر اس طرح کی سوچ سے پارٹی میں پڑنے والی پھوٹ کی خرابیوں کو درست کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ بلاشبہ گزشتہ 34 سال سے تلگودیشم نے کئی بحرانوں کا سامنا کیا ہے۔ سیاسی بحران سے نمٹنا اس کی عادت ہے۔ ٹی آر ایس لیڈر چندرشیکھر راؤ نے بھی تلگودیشم کے سرگرم لیڈر رہ کر بحرانوں سے نمٹنے کا ہنر سیکھا ہے تو اب یہ دونوں حریف قائدین ایک دوسرے کے سامنے سیاسی بازی گری کے جوہر دکھانے کی کوشش کریں گے۔ مرکز سے ٹی آر ایس کی قربت میں ابھی دیری ہے۔

بی جے پی کے ساتھ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے قائدین کی دوری کی کئی وجوہات اور سیاسی مجبوریاں ہوسکتی ہیں اس لئے بی جے پی بھی تلنگانہ کے لئے ترقیاتی کاموں انجام دینے میں ہاتھ کھینچ کر چل رہی ہے۔ مرکز کی مودی حکومت ریاستوں کے ساتھ مل کر ٹیم انڈیا بنانے کا اعلان کرچکی ہے۔ مگر تلنگانہ کے ساتھ مودی حکومت کا معاملہ وفاقی ڈھانچہ کو مضبوط بنانے کی پالیسی کے مغائر ہے۔ یوم تاسیس تلنگانہ کے ساتھ ٹی آر ایس حکومت کو آئندہ چار سال کے دوران اپنی حکومت کو ہر سطح پر کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں پھونک پھونک کر قدم رکھے کیوں کہ مرکزی اور پڑوسی ریاست آندھراپردیش کی قیادت جو تلنگانہ کی سرزمین میں دلچسپی لے رہی ہے یہاں فرقہ پرستوں کی جڑوں کو مضبوط ہونے سے روکنے کے لئے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کو اپنے دیرینہ سیاسی تجربہ کو اولیت دینی ہوگی کیوں کہ ان پر بی جے پی اور تلگودیشم نے الزام عائد کیاکہ اقتدار کے ایک سال کی تکمیل کے باوجود ٹی آر ایس اہم مسائل جیسے یونیورسٹیوں کو ترقی دینے اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ٹی آر ایس ایم پی کویتا کے تعلق سے جو کچھ کہا اور سنا جارہا ہے اس کے مطابق اگر درپردہ طور پر ٹی آر ایس نے مرکز میں مفاہمت کرلی اور کویتا کو مودی کابینہ میں شامل کیا گیا تو پھر ٹی آر ایس کو تلنگانہ میں سیکولر کردار کے بارے میں اپنے مشتبہ موقف کے ساتھ عوام سے رجوع ہونے میں مشکل پیش آئے گی۔
kbaig92@gmail.com