یوم تاسیس اور ٹی آر ایس کے چار مضبوط ستون

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے پلینری سیشن سے پتہ چلتا ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی حکومت کی کارکردگی کو موافق عوام بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ سنہرے تلنگانہ کے اپنے خوابوں کی میٹھی تعبیر کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں چیف منسٹر کو خشک سالی اور پانی کی قلت کے سنگین بحران نے گھیر لیا ہے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر وہ پینے کے پانی کی فراہمی میں ناکام ہوجائیں گے تو دوبارہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ ان کا یہ اعلان اور عزم عوام کے خشک گلے کی ہڈی بن کر رہ جائے تو ماباقی حالات کے لئے کون ذمہ دار ہوگا۔ پانی پلانے اور وعدے پورے کرنے کی بات ہورہی ہے اقتدار سے دور رہنے یا دوبارہ ووٹ مانگنے کی بات تو ابھی دور ہے، 3سال کی حکمرانی باقی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو سال کے اندر ہی چیف منسٹر نے اقتدار کی تلخیوں کے شدید زخم کھائے ہیں، اس لئے وہ سیدھے طور پر وعدے پورے نہ کرنے پر دوبارہ ووٹ مانگنے سے دستبرداری کا اعلان کررہے ہیں۔
چیف منسٹر نے مشن بھیگرتا کے تحت ریاست کے ہر ایک خاندان کو پینے کے پانی کا کنکشن فراہم کرنے کا وعد کیا تھا لیکن ان کا یہ وعدہ سخت ترین خشک سالی کے باعث مشکلات کا شکار ہورہا ہے۔ اس لئے وہ عوامی ناراضگیوں کو ہمدردی میں تبدیل کرنے کے لئے ابھی سے اقتدار سے دور ہوجانے کی باتیں کررہے ہیں۔ ایک جلسہ میں انہوں نے بلکہ ان کی کابینہ کے قائدین نے تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی طویل حکمرانی کے دعویٰ کئے تھے۔ کے ٹی راما راؤ اور ہریش راؤ نے ٹی آر ایس کو ایک ناقابل تسخیر قلعہ سے تعبیر کیا تھا، اب اچانک ایک ہی موسم نے ٹی آر ایس کے سربراہ کے بلند عزائم کو زمین بوس کردیا ہے۔ شاید اس بات میں ان کی پوشیدہ سیاست کا بھرم بھی ہو۔ آج وہ صرف دکھاوے کا عزم کررہے ہیں کل ان کا وعدہ واقعی پورا ہوجائے تو ٹی آر ایس کے اقتدار کی بنیادیں از خود مضبوط ہوجائیں گی کیونکہ عوام ہی کارکردگی کی جانچ کرنے والے اصل تجزیہ کار ہوتے ہیں۔ اگر عوام نے کسی پر مہربانی کی نگاہیں ڈالی ہیں تو سیدھا سیدھا وہ رواں اقتدار رہے گا۔ چیف منسٹر کی ہستی سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے وعدوں سے کوئی انحراف نہیں کیا ہے۔ جن لوگوں کو چیف منسٹر کے چہرے کی کتاب پڑھنی نہیں آتی انہیں یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ تلنگانہ کے ہر گھر میں کے سی آر کے نام کا ڈنکا بچ چکا ہے۔
کھمم میں منعقدہ پلینری سیشن ٹی آر ایس کی دو سالہ حکمرانی کا جائزہ اجلاس سے زیادہ عوامی مسائل کی یکسوئی کی طرف مرکوز ہوتا تو یہ اچھی بات ہوتی۔ عوام کے ہاتھوں میں اپنے وعدوں کے تحفے دینے کے بجائے اب مایوسی کے کھلونے دے کر پھسلایا جارہا ہے۔ چیف منسٹر کو احساس ہونے لگا ہے کہ وہ وعدے پورا کرنے سے قاصر ہیں، اس لئے اپنی ناکامیوں کی زنجیر خود عوام کی گردن میں ڈال کر اقتدار سے دور ہونے کی بات کررہے ہیں، ایسی باتیں تو اکثر چالاک لیڈروں کی نشانی بھی ہوتی ہیں۔ اب یہی تو وقت ہے حکومت کنارے تلاش کرنے لگتی ہے۔ ابتدائی حکمرانی کے طوفان میں بڑا طلاطم دکھائی دے رہا تھا۔ بلاشبہ عوام کو تو اپنے ووٹوں پر ناز ہوتا ہے پھر بھی تم اپنے وعدے سے مکر نہیں جانا۔ تم جانتے ہو کہ وعدے کس طرح پورے کئے جاتے ہیں اور نہیں تو یہ وعدے پورے کرنے میں اب بہانے تراش کر عوام کو گمراہ نہ کرو۔ چیف منسٹر کی صلاحیتوں کے بارے میں کافی شور سنتے آرہے ہیں اور اس میں سچ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے اندر از خود ایسی طاقت ظاہر کرلی ہے جو سال 2001 سے قبل ان کے اندر پوشیدہ تھی۔ تلگودیشم کے ساتھ وابستہ رہنے کے دوران انہوں نے تلنگانہ علاقہ میں اپنی نوعیت کی سیاسی طاقت پیدا کرنے کا عزم کرلیا تھا اور اسی عزم نے تلگودیشم اور چندرا بابو نائیڈو کی دوستی ختم کرکے ٹی آر ایس کے قیام کا حوصلہ بخشا تھا جذبہ و حوصلہ مل کر تلنگانہ تحریک کے ذریعہ نئی ریاست حاصل کرلی گئی۔ کھمم میں اس جذبہ و جوش سے قائم کردہ ٹی آر ایس کے 15ویں یوم تاسیس اور پلینری سیشن منایا گیا۔ تلنگانہ تحریک کے غیر مختتم ایجنڈہ میں پینے کے پانی کی سربراہی بھی ہے۔

تلنگانہ حکومت کی فلیگ شپ اسکیم مشن کاکتیہ کے تحت 46000 تالابوں کی بحالی اور آبپاشی پراجکٹس کو از سر نو صورت گری کے ساتھ ایک کروڑ ایکر اراضی کو آبپاشی کے قابل بنانے کا اہم مقصد ہے۔ اس پلینری سیشن کی خاص بات کچھ نہیں تھی، گرمی اور چلچلاتی و جھلسادینے والی دھوپ کی وجہ سے عوام کا ردعمل خاص نہیں رہا۔ پارٹی ورکرس کی تعداد تقریباً 4000 بتائی گئی ہے جس میں سے کم ہی ورکرس نے شرکت کی ہوگی۔ البتہ یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ شام میں منعقدہ جلسہ میں سورج کی تمازت ختم اور گرم ہوائیں چلنے کے دوران ہزاروں لوگ شریک جلسہ تھے۔ عوام کا خاص رد عمل نہ ملنے کے باوجود ٹی آر ایس کی خصوصیت یہ رہی کہ اس نے اپنے 15سال کی تکمیل کو ایک شاندار سیاسی سفر سے تعبیر کیا ہے۔ اصل میں تلنگانہ کے عوام کی خوشیوں کو دوبالا کرنے والی پارٹی کی حیثیت سے ٹی آر ایس نے اپنی ایک پہچان بنائی ہے تو اس کے اصل ہیروز میں کے سی آر کے فرزند کے ٹی راما راؤ، بھانجہ ہریش راؤ اور دختر کویتا ہیں۔ کے سی آر کو ایک شاندار مقرر اور عوام کے جذبات و احساسات کی بروقت ترجمانی کرنے والے لیڈر کی حیثیت سے مقبولیت حاصل ہے، ان کے منصوبوں اور سوچ و خیال میں شفافیت کے باعث ہی عوام انہیں پسند کرتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ تلنگانہ ریاست میں ان کی طرح کوئی متبادل لیڈر نہیں ہے، انہیں تلنگانہ میں بولی جانے والی چار زبانوں تلگو، انگلش، ہندی اور اردو پر ملکہ حاصل ہے۔ ان کے برعکس آندھرا کے بڑے لیڈروں کو نہ تو ہندی اچھی ہوتی ہے نہ انگلش میں وہ ماہر ہوتے ہیں اس کے باوجود آندھرا کے لوگوں نے تلنگانہ کے شہر حیدرآباد کے ذریعہ مرکز میں اپنی شناخت بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس لئے تلنگانہ کے لوگوں نے اپنے ہی درمیان سے چار اہم سیاسی شخصیتوں کو ذمہ داریاں دی ہیں۔
تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے ان چار ستونوں میں اول تو کے سی آر ہیں اور ان کے فرزند کے ٹی آر اور کویتا کے علاوہ ہریش راؤ ہیں یہی ٹی آر ایس کی عملاً طاقت اور مرکزیت رکھتے ہیں۔ یہاں 2001 میں تلگودیشم کی قیادت کی تلنگانہ مخالف سوچ کو بھانپ کر ہی علحدہ سیاسی پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی بنائی تھی اور گزشتہ 13سال کے دوران انہوں نے آندھرائی خطہ کے خلاف تلنگانہ عوام کے جذبات و احساسات کے ساتھ نفسیاتی کارڈ کھیلا اور کامیاب رہے تھے۔ کے سی آر اپنے دشمنوں کی فہرست سے واقف تھے اس لئے نئی ریاست تلنگانہ کا اقتدار حاصل کرتے ہوئے سب سے پہلے ان کے کٹر دشمن کو دوست بناتے ہوئے پارٹی صف میں شامل کرلیا۔ تلگودیشم کے اہم قائدین کو پارٹی میں شامل کرنے کی مہم کامیاب ہوئی تو کانگریس کے کئی اہم قائدین از خود ٹی آر ایس کی جھولی میں گرنے لگے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جبکہ ٹی آر ایس نے 15ویں یوم تاسیس منائی ہے۔ اب ان کے نزدیک کئی اہم کاموں میں پانی کی سربراہی، فنڈس کو متحرک کرنا اور تلنگانہ کے بیروزگار نوجوانوں کو روزگار دینا، مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات کے ساتھ تمام وعدوں کی تکمیل شامل ہے۔

یہ دعویٰ تو کیا جارہا ہے کہ تلنگانہ راشٹریہ سمیتی نے تلنگانہ ریاست کے خزانہ کو مستحکم بنایا ہے۔ تمام ترقیاتی کاموں کی انجام دہی، روزگار کی فراہمی کے لئے فنڈس کو خرچ کیا جارہا ہے۔ مشن بھگیرتا اور مشن کاکتیہ کے بعد برقی اور سڑکوں کی تعمیر پر توجہ دی جارہی ہے۔ تلنگانہ سے غربت کا خاتمہ کرنے کیلئے سرکاری فنڈس کو متحرک کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ تلنگانہ کی معیشت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور 2015 اور 2016 میں 15فیصد معاشی ترقی درج کی گئی ہے۔ تلنگانہ کو ملک کی چند ریاستوں میں سے ایک ریاست کہا جارہا ہے جس کے پاس فاضل مالیہ ہے۔ یہ بھی حیرت کی بات نہیں ہے کہ تلنگانہ ریاست کا آئندہ 2019-20 کا بجٹ 2لاکھ کروڑ کے نشانہ کو پہنچ جائے۔ بلاشبہ ریاست کی نئی صنعتی پالیسی نے 1600 صنعتی یونٹوں کے قیام کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس کے ذریعہ 30ہزار کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری ہوگی۔ اس کے علاوہ حیدرآباد میں سافٹ ویر کمپنیوں نے اس سال 69,000 کروڑ روپئے لاگتی برآمدات انجام دیئے ہیں اور آئندہ سال تلنگانہ ریاست کو انفارمیشن ٹکنالوجی میں اول درجہ کی ریاست کا مقام حاصل ہوگا۔ اس وقت کا دعویٰ ہے کہ تلنگانہ ملک کی پہلی ریاست ہے جہاں بہبودی اقدامات اعلیٰ درجہ پر ہورہے ہیں۔ حکومت ، بہبودی اسکیمات پر سالانہ 35000 کروڑ روپئے خرچ کررہی ہے اس لئے سنہرے تلنگانہ کا خواب پورا کرنے سماج کے تمام طبقات کو ترقی دینا اورلین مقصد و منصوبہ ہے۔اس میں بھلا مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دیئے جائیں یا نہ دیئے جائیں سنہرے تلنگانہ کا نعرہ زور سے لگاکر اپنی جیت کا اعلان کیا جائے گا۔
kbaig92@gmail.com