یوم آزادی ہند

صیاد نے کس ہشیاری سے اک رنگیں پھندا ڈالا ہے
ہر شخص یہی کہہ کر خوش ہے اب کوئی اسیر دام نہیں
یوم آزادی ہند
آج یوم آزادی ہندوستان ہے ۔ ہم 67 سال قبل ہندوستان کو انگریزوں کے قبضہ سے آزاد کروانے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ یہ آزادی ہم کو کئی قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی تھی ۔ جدوجہد آزادی بھی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے ۔ ٹیپو سلطان شہید نے سب سے پہلے ہندوستان کو انگریزوں سے بچانے کی جدوجہد کی تھی ۔ اس وقت انگریزوں نے ہندوستان میں قدم نہیں جمائے تھے ۔ صرف بنگال میں انہوں نے کچھ حد تک کامیابیاں حاصل کی تھیں اور وہ بھی غداران وطن کی ساز باز کے نتیجہ میں انہیں چند کامیابیاں حاصل ہوگئی تھیں۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف جو تن تنہا جدوجہد شروع کی تھی وہ ہندوستان کے دوسرے راجوں مہاراجوں کی جانب سے کسی طرح کا تعاون نہ ملنے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکی تھی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان پر انگریزوں کو ایک طویل وقت تک حکومت کرنے کا موقع مل گیا تھا ۔ اس طویل حکمرانی میں بھی انہیں غداران وطن کا ساتھ حاصل رہا تھا ۔ اسی وجہ سے وہ اپنے اقتدار کو طوالت دے سکے تھے بصورت دیگر ہندوستان پر وہ قدم جمانے میں آسانی سے کامیاب نہیں ہوسکتے تھے ۔ بالآخر ایک طویل جدوجہد کے بعد ملک کے ہر گوشے میں آزادی کا جذبہ پروان چڑھا اور کئی قائدین نے بے شمار قربانیاں پیش کرتے ہوئے ملک کو آزادی دلائی تھی ۔ جدوجہد آزادی میں ہندوستان میں رہنے بسنے والے ہر شہری نے بلا لحاظ مذہب و ملت قربانیاں پیش کی تھیں ۔ یہ ہماری تاریخ میں بھی رقم ہے ۔ گاندھی جی ہوں کہ پنڈت نہرو ہوں ‘ مولانا ابوالکلام آزاد ہوں کہ علی برادران ہوں ‘ شہید بھگت سنگھ ہوں کہ اشفاق اللہ خاں شہید ہوں ‘ یا پھر مولانا محمد علی جوہر ہوں سبھی نے حتی المقدور اس جنگ میں اپنا رول ادا کیا تھا اور انگریزوں کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد اس ملک سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور کردیا تھا ۔ ہندوستان کے عوام نے بھی اپنے مجاہدین آزادی کے ہر نعرہ کی تائید و حمایت کرتے ہوئے آزادی کی جدوجہد کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ آج ہم آزادی کے بعد 67 سال کا سفر طئے کرچکے ہیں لیکن آج ایسا لگتا ہے کہ جدوجہد آزادی کی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے اور آزادی کے حقیقی ثمرات سے ہندوستان کے عوام محروم دکھائی دیتے ہیں۔
آزادی کے تقریبا سات دہوں کے بعد بھی ہندوستان میں بے طرح مسائل ہیں۔ غریب عوام کو آج تک اپنے بنیادی مسائل سے آزادی نہیں ملی ہے ۔ آج بھی غریب عوام کی زندگی صرف دو وقت کی روٹی حاصل کرنے اور تن ڈھانکنے کیلئے دو کپڑوں کے حصول تک محدود رہ گئی ہے ۔ ہر پانچ سال میں ووٹ ڈال کر جن حکومتوں کو یہ عوام منتخب کرتے ہیں وہ حکومتیں غریب عوام کو مسائل سے راحت پہونچانے کی بجائے کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کی تکمیل میں جٹ جاتی ہیں یا پھر بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر کام کرنے لگتی ہیں۔ جدوجہد آزادی کے معماروں نے ہندوستان کو جس راہ پر گامزن کرنے کا خواب دیکھا تھا اس راہ سے ہندوستان نے خود کو الگ کرلیا ہے اور اب عالمی طاقتوں کا آلہ کار بنتا جارہا ہے حالانکہ ہندوستان اور یہاں کے عوام میں یہ طاقت ہے کہ یہ خود عالمی طاقت بن کر ابھرسکتا ہے لیکن ہم اس راہ سے بھٹک گئے ہیں۔ جدوجہد آزادی کی بے مثال تاریخ کو ہم مسخ کرتے جا رہے ہیں اور برسر اقتدار طبقہ یا تعصب کی عینک لگانے والے بیوروکریٹس اس میں بھی فرقہ پرستی کا زہر شامل کرتے جا رہے ہیں اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے ۔ مسلمان مجاہدین آزادی کے رول کو بتدریج تاریخ سے حذف کرتے ہوئے فرقہ پرستوں کو مجاہدین آزادی کے طور پر پیش کرنے کی مذموم کوششیں پوری شدت کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ یہ ایسا عمل ہے جس کے نتیجہ میں نئی نسل جدوجہد آزادی کی حقیقی تاریخ سے بے بہرہ رہیگی ۔
یقینی طور پر ہم کو جدوجہد آزادی کا جشن پورے جوش و خروش کے ساتھ منانا چاہئے کیونکہ ہم نے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد اور کئی طرح کی قربانیاں پیش کرنے کے بعد یہ آزادی حاصل کی ہے لیکن آزادی کے حقیقی معنی اسی وقت پورے ہوسکتے ہیں جب ہم ملک کے عوام کو ان کے مسائل سے راحت دلائیں گے ۔ غریب کو دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانکنے کیلئے دو کپڑے اور سر چھپانے کیلئے ایک چھت فراہم ہوگی ۔ حقیقی آزادی اسی وقت محسوس کی جاسکے گی جب ہندوستان جیسے عظیم ملک سے فرقہ پرستی کا خاتمہ کرتے ہوئے سماج کے تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائیگا ۔ حقیقی آزادی اسی وقت کہلائی جاسکے گی جب ہم سماج کے تمام طبقات کے جدوجہد آزادی میں رول کو پوری دیانتداری کے ساتھ پیش کرتے ہوئے نئی نسل کو اس سے واقف کروائیں گے ۔ اگر ہم یہ سب کچھ فراموش کرکے سیاسی داؤ پیچ اور مخصوص نظریات کو فروغ دینے کا عمل جاری رہیں تو حقیقی آزادی کے ثمرات سے ملک کے عوام کو محروم کرنے کے مرتکب قرار پائیں گے ۔