ہندوستان خواجہ ؒ کا نہیں‘بھارت ماتا کا ہے۔ بی جے پی کے متنازع لیڈر گری راج کا بیان

حسب عادت مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے اپنے متنازع بیان کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کی دلآزاری کی کوشش کی ہے ۔ گری راج نے کہاکہ جو لوگ خواجہؒ کا ہندوستان کہنے والے تھے وہ 1947میں ہی پاکستان چلے گئے اور اب ہندوستان خواجہ کے چاہنے والوں کا نہیں ہے۔

لہذا ‘ اب ہندوستان خواجہ کا نہیں ہے ۔گری راج نے اسی دوران کہاکہ درگا پوجا کے دوران نوادو میں دوفریقوں میں ہوئے تصادم کے بعد ہندؤوں کو پریشان کیاجارہا ہے۔گری راج نے پھر ایک مرتبہ بھارت ماتا ‘ وندے ماترم کو ان کے بنیادی اصول قراردیتے ہوئے کہاکہ سماجی برابری کے لئے ہم آواز اٹھارہے ہیں۔گری راج نے کہاکہ بھارت کی دوبارہ تقسیم ہم نہیں ہونے دیں گے ‘ او رجو لوگ ہندوستان کو خواجہ کا ہندوستا ن بنانا چاہتے ہیں وہ یہ بات سمجھ لیں کہ خواجہ کا ہندوستان بنانے والے 1947میں ہی پاکستان چلے گئے اور اب مزید تقسیم نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ میں اکبر پور کے عوام کو مبارک دیتا ہوں اور مزیدکہاکہ مورتی ٹوٹنے کے بعد بھی انہوں نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔

ایسے لوگوں کی انتظامیہ حوصلہ افزائی کرے‘ مگر ان کا نام غلط طریقے سے مقدمہ میں ڈالاجارہا ہے۔سمجھا یہ جارہا ہے کہ مرکزی وزیر کا یہ متنازع بیان نوادہ میں لگا پوسٹر ہے جس پر خواجہ کا ہندوستان لکھا ہوا ہے۔اسی کولیکر نوادہ سرکٹ ہاؤس کے میٹنگ ہال میں گری راج نے یہ متنازع بیان دیا۔انہوں نے کہاکہ یہاں کی گلی محلوں میں تقسیم کی لکیر کھینچی جارہی ہے۔ اکبر پور کے تعزیہ جلوس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ خواجہ کا ہندوستان ‘ لیکن یہ خواجہ کا نہیں بلکہ بھارت ماتا کا ہندوستان ہے۔ خاص بات تو یہ ہے کہ اجمیرکے خواجہ معین الدین چشتیؒ کی اجمیر میں معروف درگاہ ہے۔

یہ درگاہ صدیوں سے بھائی چارہ اور امن اور محبت کا پیغام دیتی آرہی ہے۔ہندوستان میں چشتیہ سلسلہ کی بنیاد خواجہ اجمیری ؒ نے ہی رکھی ‘ جنھوں نے سارے ملک میں امن آشتی کے پیغام کو عام کیاہے۔سارے دنیا سے زائرین خواجہ اجمیری کے آستانے پر حاضری دیکر سرزمین ہند کی قسمت پر رشک کرتے ہیں ۔ مگر اب سیاست اس قدر بھدی ہوگئی ہے کہ خواجہ اجمیری بھی اس سے بچ نہیں سکے اور وہ بھی اب ہندوستانی نہیں رہے۔

ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بی جے پی اپنی گرتی ساکھ ‘ اور پارٹی کے اندرونی خلفشار کو ایک نیا رنگ دینے کے لئے حسب ضرورت گری راج ‘ سبرامنیم سوامی اور سادھوی پراچی جیسے لوگوں کو میدان میں چھوڑدیتے ہیں تاکہ وکاس کی جو گاڑی سست رفتار ی سے چل رہی ہے اس میں بیٹھے مسافرین کو گمراہ کیاجاسکے۔ خیر گری راج جیسے لوگوں کے کہنے یا نہ کہنے سے کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کا وقار بارگاہ اجمیریؒ پر حاضری دینے والے زائرین جن میں مسلمانوں سے زیادہ غیرمسلم ہندوستانی برداران وطن کی تعداد زیادہ ہوتی ہے خود اس بات کی گواہی دیتے ہیںیہ ہندوستان خواجہ کا ہی ہے۔