گھر کے اندر جھوٹوں کی ایک منڈی ہے

لا کمیشن کو بھی الیکشن کی جلدی
ہجومی تشدد روکنے میں یوگی ناکام

جہد کاروں کو سپریم کورٹ سے راحت

رشیدالدین
عام طورپر سرکاری ادارے حکومت کی مرضی اور مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ یہ اس لئے بھی ہوتا ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے ان اداروں پر تقررات کئے جاتے ہیں ۔ دستوری اداروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حکومت اور برسر اقتدار پارٹی کی ہاں میںہاں ملائیں۔ یوں تو دستوری اداروں پر بھی تقررات حکومت کی جانب سے کئے جاتے ہیں لیکن ان کا آزادانہ موقف ہوتا ہے۔ ایسے معاملات جن میں ملک و قوم کی بھلائی مضمر ہو ، ان میں حکومت کی تائید بجا ہے لیکن ہر معاملہ میں آنکھ بند کر کے حکومت کے سر میں سر ملانا دستوری اداروں کے وقار کو مجروح کرسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن ، انسانی حقوق کمیشن اور لا کمیشن کا شمار ایسے اداروں میں ہوتا ہے جو حکومت کی رائے سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔ جمہوریت میں مقننہ ، عدلیہ اور عاملہ کو تین ستون قرار دیا گیا ہے اور ایک بھی ستون کے کمزور ہونے کی صورت میں جمہوریت کی بنیادیں غیر مستحکم ہوسکتی ہے۔ اگرچہ صحافت کو چوتھا ستون کہا جاتا ہے لیکن نریندر مودی نے گزشتہ چار برسوں میں قومی صحافت کو عملاً یرغمال بنالیا ہے ، ایسے میں عوام کی امیدیں دستوری اداروں سے وابستہ ہیں۔ عدلیہ کو ملک میں سب سے زیادہ آزاد تصور کیا جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چار سینئر موسٹ ججس ان پر دباؤ کی شکایت کے ساتھ میڈیا کے روبرو آگئے ۔ ان سب کے باوجود بلامبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں دستور اور قانون بالادستی کے قیام میں عدلیہ کا اہم رول ہے۔ لا کمیشن نے ملک میں لوک سبھا اور اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات کی تائید کردی ہے۔ اس طرح وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے موقف کو مستحکم کیا گیا ۔ لا کمیشن نے اپنی عبوری رپورٹ میں ایک ملک ، ایک چناؤ نظریہ کی تائید کرتے ہوئے دستور میں ترمیم کی صلاح دے ڈالی۔ دستوری ترمیم کے بغیر موجودہ ڈھانچہ میں یہ ممکن نہیں ہے اور دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والی بی جے پی حکومت کو دستوری ترمیم میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں ہوگی۔ الیکشن کمیشن نے اگرچہ بیک وقت انتخابات کو ناممکن قرار دیا تھا لیکن دستوری ترمیم کی صورت میں الیکشن کمیشن حکومت کے احکامات کا پابند ہوجائے گا ۔ لا کمیشن کی جانب سے وسیع تر مشاورت کی تجویز کے قطع نظر چونکہ مرکز اور بیشتر ریاستوں میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے، لہذا دستوری ترمیم کے ذریعہ بیک وقت انتخابات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ نریندر مودی جو طویل عرصہ سے بیک وقت انتخابات کی وکالت کر رہے تھے،

اب دیکھنا ہے کہ دستوری ترمیم ہوگی یا نہیں ؟ اگر مرکز چاہے تو دستوری ترمیم کے ذریعہ ڈسمبر میں چار ریاستی اسمبلیوں کے ساتھ لوک سبھا اور دیگر اسمبلیوں کے چناؤ کی پہل کرسکتا ہے۔ ایسے میں ان ریاستوں کا کیا ہوگا جہاں چند ماہ قبل ہی انتخابات ہوئے۔ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں نے اس تجویز کی مخالفت کی لیکن اکثریت کے غرور میں دستوری ترمیم کی جائے تو اس سے جمہوری اقدار نہ صرف متاثر ہوں گے بلکہ ملک میں اپوزیشن کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر من مانی ترمیمات منظور تو کی جاسکتی ہیں لیکن جمہوریت کا کیا ہوگا۔ انتخابات میں عجلت عام طور پر وہی پارٹیاں کرتی ہیں جن میں کچھ کمیاں یا کمزوری ہو ، جنہیں دوبارہ کامیابی کا یقین نہ ہو۔ عوامی ناراضگی کے بڑھنے سے قبل ہی عوام کا دوبارہ اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مرکز میں نریندر مودی ہوں یا تلنگانہ میں کے سی آر دونوں کے اعصاب پر وسط مدتی چناؤ کا بھوت سوار ہے۔ یہ وہی لا کمیشن ہے جس نے حکومت کے اشارہ پر طلاق ثلاثہ اور یکساں سیول کوڈ کے بارے میں عوامی رائے حاصل کی تھی ۔ دستور چونکہ انسانوں کا بنایا ہوا ہے ، لہذا اس میں ترمیم کا حکومت کو حق حاصل ہے جبکہ شریعت الٰہی قانون ہے ، اس میں ترمیم کا کسی کو حق نہیں ہے ۔ مرکز نے سپریم کورٹ کے ذریعہ طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اگر ہر قانون کا نفاذ رائے شماری کی بنیاد پر ہونا ہے تو پھر دیگر مذاہب کے قوانین پر عوام کی رائے حاصل کیوں نہیں کی جاتی۔ صرف مسلمان اور شریعت ہی نشانہ

پر کیوں ہیں ؟ لا کمیشن کے رائے شماری کے فیصلہ پر ایک نامور عالم دین نے تبصرہ کیا تھا کہ اگر کمیشن کو رائے شماری کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ کشمیر کے عوام کی رائے حاصل کرے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور آگے بھی رہے گا لیکن عوامی رائے جاننا ہی ہے تو پھر وہاں رائے شماری کیوں نہیں۔ دوسری طرف ملک میں ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اترپردیش کے بریلی میں شاہ رخ خاں نامی مسلم نوجوان کو بھینس چوری کی کوشش کے الزام میں ہجوم نے مار مار کر ہلاک کردیا ۔ کیا ایک انسان کی زندگی جانور کی زندگی سے کمتر ہوچکی ہے ؟ اگر نوجوان نے چوری کی کوشش کی تھی تو وہ ہجوم کے قبضہ میں تھا ، لہذا قانون کے حوالے کیاجاسکتا تھا ۔ دراصل جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں نے ملک بھر کے ہندوؤں میں مسلمانوں کے بارے میں نفرت کا زہر کچھ اس طرح گھول دیا کہ مسلمان نظر آتے ہی اسے ہلاک کرنے پر اتر آتے ہیں۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اس طرح کے واقعات بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں زیادہ پیش آرہے ہیں۔ اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے عہدہ سنبھالتے ہی امن و ضبط کو قابو میں کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن اترپردیش میں ہجومی تشدد کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ادتیہ ناتھ حکومت شرپسندوں پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے یا پھر جان بوجھ کر انہیں مسلمانوں پر مظالم کا موقع دیا جارہا ہے۔ ادتیہ ناتھ تو ایک یوگی ہیں ، وہ انسانی جان کی قیمت دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔ ایک حقیقی یوگی انسان توکجا جانور کو تکلیف دینے پر یقین نہیں رکھتا لیکن ان کی حکومت میں جس طرح مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ، اس سے ادتیہ ناتھ کا یوگی ہونا شک کے دائرے میں آچکا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی جنہوں نے تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک کا وعدہ کیا تھا ، انہیں تو ہجومی تشدد کے واقعات کی شائد اطلاع تک نہیں دی جاتی یا اگر ملتی بھی ہے تو وہ انہیں معمولی سمجھ کر تبصرہ کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

اظہار خیال کی آزادی جمہوریت کی خوبی ہے۔ آزادی کے 72 برسوں میں ملک میں اظہار خیال کی آزادی کو بعض مواقع پر کچلنے کی کوشش کی گئی لیکن حکومتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہ ہو تو پھر ڈکٹیٹرشپ کا آغاز ہوجائے گا۔ گزشتہ دنوں مہاراشٹرا پولیس نے ملک کے پانچ نامور انقلابی مصنفین اور جہدکاروں کو وزیراعظم مودی کی قتل کی سازش کے الزام میں گرفتار کرلیا ۔ مہاراشٹرا میں پیش آئے ماوسٹ تشدد کے 9 ماہ بعد پونے پولیس کو تحقیقات نے وزیراعظم کے قتل کی سازش کا پتہ چلا۔ جن جہد کاروں کو گرفتار کیا گیا وہ بائیں بازو نظریات کے حامل اور انسانی حقوق کے علمبردار شمار کئے جاتے ہیں۔ ایمرجنسی کے دوران بھی اس وقت کی حکومت نے اظہار خیال کی آزادی کو کچلنے کی کوشش کی تھی ۔ گزشتہ چار برسوں میں نریندر مودی حکومت ملک میں غیر معلنہ ایمرجنسی نافذ کرچکی ہے۔ قومی اور علاقائی میڈیا پر بی جے پی نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ کسی بھی قومی چیانل کا رپورٹر یا اینکر نریندر مودی کے خلاف کچھ بھی کہنے کی جرات نہیں کرسکتا ۔ اگر کوئی ہمت کرے تو اسے ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق میڈیا گھرانوںکو واضح طور پر ہدایات ہیں کہ حکومت اور وزراء کے خلاف بھلے ہی رپورٹ دکھائی جائے لیکن کسی بھی رپورٹ میں نریندر مودی کا تذکرہ شامل نہ رہے۔ ایک دو قومی چیانل ایسے ہیں جنہوں نے دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کیا تو ان کے مالکین کو انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے دھاوؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر مخالف آواز کو دبانا نریندر مودی حکومت کا مقصد بن چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے 5 جہد کاروں کو راحت دی ہے اور انہیں 6 ستمبر تک گھر پر نظربند رکھنے کی ہدایت دی۔ اس مدت میں مہاراشٹرا پولیس کو گرفتاری کی وجوہات اور الزامات کے ثبوت عدالت میں پیش کرنے ہوں گے۔ ججس نے انتہائی سخت ریمارک کیا کہ ’’ناراضگی جمہوریت کے تحفظ کی پرت ہے، اگر اسے دبایا گیا تو کوکر پھٹ سکتا ہے‘‘۔ سپریم کورٹ کا یہ ریمارک خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں اس انداز سے مخالف آوازوں کو دبایا جارہا ہے ۔ اگر واقعی وزیراعظم کے قتل کی سازش تیار کی گئی اور الزامات میں سچائی ہے تو یہ بات یقیناً باعث تشویش ہے۔ صرف سازش پر اس قدر تیزی سے گرفتاریاں لیکن ہجومی تشدد کے ذریعہ تقریباً 100 معصوموں کی ہلاکت پر بے حسی ناقابل فہم ہے۔ ہجومی تشدد کے کتنے ملزمین کو گرفتار کیا گیا اور سزا پانے والوں کی تعداد کیا ہے ، اس کی وضاحت حکومت کو کرنی چاہئے ۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے ملک کے سیاسی حالات پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
گھر کے اندر جھوٹوں کی ایک منڈی ہے
دروازہ پر لکھا ہوا ہے سچ بولو