گوری لنکیش کیس کی تحقیقات کے دوران ‘ کس طرح خصوصی تحقیقاتی ٹیم کو ایک ’’بڑی سازش‘ کی بھنک لگی

حالانکہ ابتدا می ں لنکیش کی تحقیقات سست تھی‘ ایس ائی ٹی نے نامعلوم تنظیم کے تعقب میں اس کو وسیع کیا‘جس کے تار دوسرے قتل کے واقعات سے منسلک پائے گئے۔
بنگلورو۔ ایک سال قبل آج ہی کے دن صحافی جہدکار گور ی لنکیش کوبنگلوروں کے راجیشواری نگر میں ان کے گھر کی گیٹ میں دفتر سے واپسی کے وقت تین نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کردیاتھا۔

اس حساس قتل کے تحقیقات کے معاملے میں ایک اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم( ایس ائی ٹی) کی تشکیل عمل میں ائی جس کا دعوی ہے کہ اس نے اپنی تحقیقات مکمل کرلی ہے‘ بارہ لوگوں کی گرفتاری ہوئی اور اسی نامعلوم تنظیم کے تار دیگر تین قتل سے جڑنے کی بھی ٹیم کو بھنک لگی‘ اور تینوں مقتول توہم پرستی اور نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے والے تھے۔

گوری لنکیشن جو پندرہ روزہ گوری لنکیش پتریکا نکالتی تھی‘ بڑی بے باکی کے ساتھ ہندو بنیاد پرستی کے خلاف بات کرنے والی تھی اور انہیں خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔

ایس ائی ٹی عہدیدار کے ساتھ کئے گئے انٹرویو اور عدالت میں پیش کئے گئے دستاویزات سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ گوری کے قتل کا منصوبہ ایک سال بنایا گیا تھا ‘ جس کی وجہہ برسرعام ہندو مذہب کے خلاف گوری کی تنقیدیں تھیں اور اس بات کا انکشاف افیسر نے کیا ہے۔

اب تک یہ بات صاف نہیں ہوئی ہے کہ تحقیقات کرنے والوں کے پاس کیا ثبوت ہیں اور ان کے دعوی عدالت میں ٹک پائیں گے یا نہیں۔ گرفتار شدگان میں سے ایک کے وکیل نے کہا ہے کہ کوئی ثبوت ہی نہیں ہے۔

تحقیقات میں سست ہے کم سے کم ابتداء میں۔ اگر مانیں تو تحقیقات کے پہلے ماہ میں سراغ رساں عہدیداروں کا دعوی تھا کہ موقع سے جو گولی برآمد ہوئی ہے کہ اسی طرح کی گولی دانشوار ایم ایم کلبورگی کے قتل کے موقع سے ملی تھی جس کو کرناٹک کے دھارواڑ ضلع میں ان کے گھر کے سامنے 30اگست2015کو گولی مار کر ہلاک کردیاگیاتھا۔

پھر ایک مرتبہ بکھرے ہوئے شواہد کو مقام واقعہ سے اکٹھاکرنے کا سلسلہ شروع ہوا‘ جو گولی سے ہٹ کر تھا‘ مگر کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی تھی۔ گوری لنکیش کے گھر کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمرہ کے ذریعہ قتل کی واردات کے مناظر حاصل کئے گئے‘ مگر اس فوٹیج سے کچھ خاص کامیابی نہیں ملی۔

لنکیش کو گولی مارنا والا شخص ہیلمٹ پہنے ہوئے تھا اور اس کی شناخت نہیں ہو پارہی تھی۔علاقے کے تمام فون ریکارڈس کو کھنگالنے کی کام شروع ہوا تاکہ معاملے کے اختتام تک پہنچنے کے لئے کوئی سراغ ہی مل جائے۔

پولیس نے لاکھوں فون کالس کی تفصیلات کی جانچ کی اور سیل فون ٹاؤر کا ریکارڈ بھی جمع کیا۔پھر ایس ائی ٹی نے نگرانی کے لئے ایک دیسی فارمولہ کے استعمال کا فیصلہ کیا اور قتل کی الجھی ہوئے تاروں کو جوڑنے کی کوشش کی ‘ جس کے متعلق بہت سارے لوگ جانتے نہیں ہیں۔

عوام اور میڈیا کے بڑھتے دباؤ اور پولیس فورسس کے اندرونی پریشر بڑھنے کے ساتھ ہی ایس ائی ٹی کو قتل کے متعلق خفیہ جانکاری ملی۔

ایک سینئر افیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایس ائی ٹی کو نومبر میں جانکاری ملی کہ کے ٹی نوین کمار نامی ایک شخص گوری لنکیش کے قتل کے بعد سے غائب ہے۔

مانڈیا ضلع کے ساکن کمار کا چیک منگلور ضلع کے ایک گاؤں میں پتہ چلا‘ اور اس پر پولیس نے نظر رکھنا شروع کردی۔مذکورہ افیسر نے کہاکہ’’ ہم نے دیکھا کہ وہ مسلسل کئی کائن فون بوتھ کا استعمال کررہا ہے

۔جب سے ہم نے اس پر نظر رکھنا شروع کیاتھا اس نے 128کوئن بوتھ کا استعمال کیا۔ایسے چھ بوتھ تھے جہاں سے وہ مسلسل فون کال کررہا تھا‘‘۔

مذکورہ فون کالس کی تفصیلات حاصل کرنے کے بعد ایس ائی ٹی کو اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ نوین کمار کے پاس گوری لنکیش کے قتل کے متعلق جانکاری ہے۔

مندرجہ بالا افیسر نے کہاکہ’’جب ہم نے نوین اور دیگر فرد کے درمیان کی بات چیت میں مداخلت تو ہمیں اس بات کا سراغ ملا ہے کہ ایک اور قتل کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی‘‘۔ اور وہ مبینہ طور پر کے مصنف ایس بھگوان کے قتل کا منصوبہ تھا‘ جو ہندوازم کے خلاف سخت رائے رکھتے ہیں۔افیسر نے کہاکہ ’’ ہم نے محسوس کیا کہ منصوبہ پہلے سے تیار ہوگیا ہے اور اس پررائے قائم کرنا ہے۔

یہی وجہہ ہے کہ ہم نے اس کو(نوین کمار) اٹھانے کا فیصلہ کرلیا‘‘۔نوین کمار کو 18فبروری کے روز بنگلورو سے گرفتار کیا گیا مبینہ طور سے اس کے پاس ہتھیار تھا جس کو فروخت والا تھا۔اس گرفتاری کے ذریعہ ایس ائی ٹی نے منصوبے میں ملوث دیگر مشتبہ لوگوں کی تفصیلات اکٹھاکرنے میں کامیا ب ہوسکی۔

مئی20کے روز پولیس نے سجیت کمار عر ف پروین کو گرفتار کیا‘ جن کا دعوی ہے کہ یہ فرد کولا ر سے نوین کمار سے بات چیت کررہاتھا۔

افیسر نے کہاکہ’’سجیت سے ہمیں دیگر ملزمین تک رسائی میں مدد ملی‘‘۔افیسر کے مطابق سجیت کمار نے تحقیقات کرنے والوں کو جو اشارہ دئے تھے اس سے امول کالے کی گرفتاری میں مدد کی ‘ جو پونے کا رہنے والا ہے اور مانا جارہا ہے کہ ان قتل کے واقعات کا وہ ماسٹر مائنڈ ہے اور امیت دیوگری جو مہارشٹرا کا ہے اوردوسرا ماسٹر مائنڈ ہے ان کی گرفتاریاں کرناٹک کے دیوگری سے ہی ہوئی ۔

اس کے علاوہ پولیس نے وجئے پورا کے ساکن منوہر ایڈوا کو بھی گرفتار کیا ‘جس کے متعلق پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے قاتلوں کی بھرتی میں اہم رول ادا کیاہے۔ان لوگوں سے تفتیش اورگوری لنکیش کے گھر سے حاصل سی سی ٹی وی فوٹیج کے عصری جائزے کے بعد پولیس کا یہ کہنا ہے کہ انہیں لنکیش پر گولی چلانے والے کی شناخت کے طور پر پرشورام واگھماری کی شناخت میں مدد ملی۔

اسی طرح امیت بڈی اور گنیش مسکن جس پر شبہ ہے کہ واگھماری کوٹووہیلر گاڑی پربیٹھاکر لیاتھا ‘ راکیش بنگیرا جس نے شوٹر کو تربیت دی‘ موہن نائیک سریش اور بھارت کرانے کو بھی پولیس نے حراست میں لے لیا۔شواہد کی گڑی میں دھماکو رپورٹ میں یہ بات ثابت کردی کہ ایک طرح کا ہتھیار لنکیشن اور کلبرگی کے قتل میں استعمال کیاگیاتھا۔

ایس ائی ٹی افیسر نے کہاکہ’’ تاہم ایک ہی اشارے پر تحقیقات کو لے جانے کے لئے ہم نہیں سونچ رہے تھے‘ ہم نہیں چاہتے تھے کہ تحقیقات یہیں پر ختم ہوجائے۔ ہم حقیقی قاتلوں کی گرفتاری چاہتے تھے‘ جو ہمارا مقصد تھا‘‘۔

کالے کی گرفتاری کے دوران ایس ائی ٹی کو ایک ڈائری ملی جس کے ذریعہ اہم جانکاریاں حاصل ہوئیں۔افیسر نے کہاکہ’’ یہ آسان نہیں تھا کیونکہ ڈائری میں کوڈ کا استعمال کیاگیاتھا‘‘۔

افیسر نے بتایا کہ’’ اس کے علاوہ کالے اور دیوگری کی گرفتاری کے باوجود دیگر ملزمین ایک دوسرے کو نام سے تک نہیں جانتے تھے‘‘۔

جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھ رہی تھی ‘ ایس ائی ٹی کا کہنا ہے کہ انہیں ایک ایسی تنظیم سے آگاہی ہوئی جو ان کی نگرانی کررہی ہے‘ جو کالے اور اس کی ساتھیوں کے ساتھ لنکیش کے قتل میں ملوث ہے۔

ایس ائی ٹی افیسر نے کہاکہ’’ ہمیں احساس تھا کہ ہم ایک نہایت منظم تنظیم کا پردہ فاش کرنے کاکا م کررہے ہیں ‘ کیونکہ بڑے پیچیدگی کے ساتھ بنایاگیا منصوبہ تھا اور ہر کوئی ان کے رول کے متعلق جانتا تھا‘‘۔

افیسر نے کے مطابق کالے کو تنظیم سنبھالنے کی ذمہ داری اس وقت ملی جب 20اگست 2013کو پونے میں چہل قدمی کے دوران صبح کے وقت پیش ائے نریندر دابولکر کے قتل میں ویریندر تاوڈے کی گرفتار ی عمل میں ائی تھی۔

ایس ائی ٹی کا ماننا ہے کہ تاوڈے نے2013میں تنظیم کی بنیا د ڈالی تھی۔ کالے اور ایک مرلی کے طور پر شناخت کیاگیا فرد مہارشٹرا میں اور ایڈوا اورسجیت کمار کرناٹک میں تقررات کے کام پر مامور کیا گیاہوگا۔

اسی وقت کے دوران بانیگرا گروپ کے رابطے میںآیا‘ جس نے نئی بھرتیوں کو ٹریننگ بھی دی۔ایس ائی ٹی افیسر نے کہاکہ’’دائیں بازو گروپس کے کچھ شدت پسند ممبران کو گروپ نے نشانہ بنایا‘ بالخصوص انہیں جن کے خلاف مقدمات ہیں‘ کیونکہ ان کا احساس تھا کہ وہ اپنے حوصلے کو ثابت کرچکے ہیں‘‘۔

اس کیس میں اب تک ایس ائی ٹی نے کوئی چارج شیٹ داخل نہیں کی ہے۔

اگست14کے روز انہوں نے کرناٹک کنٹرول آف آرگنائزٹ کرائم ایکٹ کے تحت ملزمین کی چھ ماہ کی تحویل حاصل کی۔ملزمین کے وکلا نے کہاکہ پولیس نے اب تک ملزمین کے خلاف کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیاہے۔نوین کمار کے وکیل ویدمورتی نے کہاکہ میرے موکل کی گرفتاری کو پانچ ماہ کا وقفہ گذر چکا ہے۔انہوں نے کہاکہ’’ ابتداء میںیہ دعوی کیاگیا ہے کہ نوین نے قتل کے لئے ہتھیار فراہم کئے ہیں۔

اس کے بعد یہ الزام ہٹادیاگیا۔ پھر یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اس نے علاقے کی ریکارڈنگ کی‘ وہ الزام بھی اب نہیں ہے‘ ایس ائی ٹی لہذا وقت کے لئے کھیل کھیل رہی ہے‘‘۔

ویدا مورتی نے کہاکہ’’ یہی وجہہ ہے کہ پولیس کے سی او سی اے کو شامل کیا ہے تاکہ ملزمین کی تحویل برھائی جاسکے کیونکہ وہ شواہد تیار کرنے کی اب بھی کوشش میں ہے‘‘۔ ملزمین کے دیگر وکلاء ایس ائی ٹی کے دعوؤں کو ٹیلی ویثرن سیریل کی کہانی قرار دے رہے ہیں۔