گرگاؤں کی تنظیمو ں کا مطالبہ۔پچاس فیصد مسلم علاقے میں ہی نماز کے لئے منظوری دی جائے

گرگاؤں۔اپنی تحریری نمائندگی میں احتجاجیوں نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ جمعہ کے روز سیکٹر 53میں پڑھی جانے والی نماز کا مقصد غیر قانونی طریقے سے زمین پر قبضہ کرنا ہے۔

اس کے علاوہ الزام لگایاجارہا ہے کہ نماز پڑھنے والوں نے مبینہ طور سے مقام واقعہ پر مخالف انڈیا او رموافق پاکستان نعرے لگائے۔مختلف تنظیموں نے سنیوکت ہندو سنگھر ش سمیتی کے زیراہتمام مختلف تنظیموں نے پیر کے روز صبح گرگاؤں میں احتجاجی دھرنا منظم کرتے ہوئے چھ لوگوں کے خلاف درج مقدمہ سے دستبرداری کا مطالبہ کیاجنھوں نے سیکٹر 53میں جمعہ کی نمازکے دوران خلل پیدا کرتے ہوئے نعرے لگائے تھے اور شہر بھر میں کھلے مقامات پر نماز کی ادائی کے لئے امتناع عائد کرنے کا بھی مذکورہ تنظیموں نے شہری انتظامیہ سے مطالبہ کیا۔

ان تنظیموں کے کارکنوں نے سڑکوں پر اتر پر جمعہ کھلے اراضی پر جمعہ کی نماز کی ادائی پر روک کا بھی مطالبہ کیا۔ پیرکے روز اولین ساعتوں میں پچاس کے قریب احتجاجی کملا نہر و پارک کے قریب جمع ہوگئے اور چھوٹے سکریٹریٹ تک مارچ نکالا اور چیف منسٹر دہلی کے علاوہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سے اس ضمن میں تحریری نمائندگی بھی کی۔

احتجاج کرنے والے تنظیموں نے مبینہ طور پر اپنے مکتو ب میں لکھا ہے کہ ’’ پچھلے ایک دیڑھ ماہ سے گرگاؤں کے وزیرآباد کی کھلی اراضی پر کچھ لوگ نماز ادا کررہے ہیں‘ جس کا مقصد زمین پر قبضہ کرنا ہے۔

وہ لوگ ’ پاکستان زندہ باد‘ اور’ ہندوستان مردہ‘ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ماحول کوخراب کررہے ہیں‘‘ ۔ مکتوب میں لکھا ہے کہ ’’ جب کچھ حب الوطن نوجوان نے ایسا کرنے سے انہیں روکا ‘ پولیس نے یکطرفہ تحقیقات کی ۔ کیا’وندے ماترم‘ اور ’ جئے شری رام‘ کے نعرے لگانے گناہ ہے جس کے الزام میں نوجوانوں کو گرفتار کرلیاگیا؟‘‘

۔پچھلے دس سالوں سے یہا ں پر جمعہ کی نماز کے جمع ہونے والوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا۔ سیکٹر 53میں20اپریل کے روزنماز جمعہ کے دوران پیش ائے واقعہ کی شکایت کردہ اور نہرو یوا سنگھٹن ویلفیر سوسائٹی چیارٹبل ٹرسٹ کے سربراہ واجد خان نے کہاکہ’’ نماز کے دوران ہم ایک دوسرے سے بات تک نہیں کرتے‘ نعرے لگانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ یہ تمام جھوٹے الزامات ہیں‘‘۔

انتظامیہ سے کی گئی تحریری نمائندگی میں لکھا ہے کہ’’ گرگاؤں میں مقیم روہنگیائی اور بنگلہ دیشیوں کی شناخت او رنشاندہی کرائی جانی چاہئے۔ ہندو کالونیوں‘سیکٹرس او رپڑوسں میں نماز کی اجازت نہیں دی جانے چاہئے۔ ان ہی علاقوں میں اجازت دی جانی چاہئے جہاں پر ان کی آبادی پچاس فیصد سے زائد ہو‘ ورنہ ہم امن کی برقرار ی کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کے سلسلے کو جاری رکھیں گے‘‘۔

اپریل20کے روز کھلے پلاٹ پر نماز ادا کرنے والوں کوروکنے کے لئے ایک گروپ سیکٹر53پہنچ کر ’ جئے شری رام‘ او ر’ رادھے رادھے‘‘ کے نعرے لگانے شروع کردئے تھے اور وہاں پر موجود لوگوں سے پلاٹ سے بیدخل کرنے کی دھمکیاں دی ۔

اس واقعہ کو ویڈیو بھی سوشیل میڈیا پر تیزی کے ساتھ وائیرل ہوا تھا۔ اس ضمن میں پچھلے ہفتہ ایک کیس درج کیاگیا ۔ ملزمین کی شناخت ارون ‘ منیش‘ دیپک‘ رویندر اور مونو کی حیثیت سے کی گئی اور یہ تمام وزیرآباد او رکنہائی کے رہنے والے بتائے جارہے ہیں۔اتوار کے ان تمام ملزمین کو ضمانت بھی مل گئی۔

احتجاج میں شامل ایک تنظیم بجرنگ دل کے ضلع صدر ابھیشک گؤر نے کہاکہ ’’ ہم ضلع انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں وہ کھلے مقامات پر نماز ادا کرنے کو ممنوعہ قراردیں ‘ ورنہ ہم خود ایک ٹیم تشکیل دیتے ہوئے شہر میں جمعہ کے روز کھلے مقاما ت پر ادا کی جانے والی نماز کو روکنے کام کریں گے ‘‘۔اس معاملے پر بات کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر نہ تو فون پر دستیاب رہے اور نہ ہمارے مسیج کا جواب دیا۔