گجرات کے مسلم رائے دہندگان کا عالم۔ منظم طریقے سے دوسرے درجہ کا شہری بنادیا گیا ہے۔ مسلکی اختلافا ت سے بالاتر ہونے کی ضرورت

گجرات کی عوام الناس بالخصوص رائے دہندگان فرقہ واراہ سیاست کے طلسم سے اب باہر نکل چکے ہیں۔باوجود اسکے وہاں پر جاری انتخابی مہم نے فرقہ وارانہ رخت اختیار کرنا شروع کردیاہے۔ یہ بات واضح ہے کہ نہ صرف کانگریس بلکہ حکمرا ں جماعت بی جے پی بھی روایتی طور پر عوامی مسائل بالخصوص ہندو مسلم مفادات کو اپنی انتخابی مہم کا محور بناچکی ہے۔

ادھر کانگریس حسب سابق نرم ہندتوا کے فارمولہ پر عمل پیرا ہے تو ادھر بی جے پی اپنی فرسودہ ذہنیت پر آڑی اور بہر قیمت اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو ابھار کر چوتھی معیاد کے لئے سارے زعفرانی ووٹ اپنی جھولی میں ڈالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔

خبر دار رہیں کہ مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لئے جو مذموم حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے اس کا تعلق گائے کے تئیں حساسیت اور جہادوں کی روز. افزوں نسل پروریکے علاوہ’’ لوجہاد‘‘ تیز عروج اسلام کا حد سے زیادہ خوف دلانے کے ساتھ ساتھ رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ یا گجراتی ثقافت وغیرہ کو اس طھرح سرایت دی جاتی ہے کہ بڑھتی ہوئی بدعنوانیوں اور خوش حالی کا فقدان ‘ بہتر نظام حکومت اور ونظم ونسق کا استحکام کے موضوع کو چمٹے سے چھوا تک نہیں جاتا۔حال ہی میں وہاں آر ایس ایس کی ایک شاخ پر یہ الزام عائد کیاگیا کہ اس نے انتخابی ماحول میں ووٹروں کو ورغلانے کے لئے بظاہر رام مگر انگریزی مخفف RAMیعنی ( روپانی ‘ امیت شاہ اور مودی کو ہندؤوں لکا نجات دہندہ) بتانے والے پوسٹر ز شائع کئے ہیں۔اور حج )ّٓHAJ)کی مخفف سے مراد( ہاردیک پٹیل‘ الپیش ٹھاکر اور جگنیش میوانی)جیسوں کو مسلمانو ں کی خوشنودی حاصل کرنے والا بتایا ہے۔

واضح رہے کہ وہ متنازع پوسٹرز صرف گلیوں او رنکڑوں تک ہی آویزاں نہیں کئے گئے بلکہ دیگر ذرائع ابلاغ مثال کے طور پر سوشیل میڈیا کا واٹس ایپ‘ فیس بک پر بھی طشت ازبام کردیاگیا۔ عیاس رہے کہ کانگریس کی انتخابی حکمت عملی اشتعال انگیزیو ں کا بھانڈا پھوڑ کر اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔بہر طور مسلمانوں کا سب سے سنگین مسئلہ اپنی بقااو رمعاشی تحفظ سے عبارت ہے جو کہ گجرات کے موجودہ سیاسی ماحول میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی او رالیشن اور پس از انتخابات ہونے والی ممکنہ حریفائی وانتقامی کاروائیوں کے ازالہ کا ہے۔

بجاطو ر پر ہمیں 2011کی مردم شماری کی رپورٹ کو ملحوظ رکھنا ہوگا جس کی رو سے گجرات میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 9.67فیصد ظاہر کیاگیا ہے ۔ جو عموما گجرات کے شہری علاقوں میں 14.75فیصد اور دیہی علاقوں میں5.9فیصد کی تعداد میں بستے ہیں۔ چنانچہ ضلعی مسلم آبادی کی تقسیم کے اعتبار سے ان سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ اس صوبے کے کل33اضلاع میں سے بالخصوص مسلمانوں کی بٓبادی کا تناسب دس اضلاع میں اوسطاً بشمول خطہ کچ( 21فیصد)بھروچ(22فیصد)جام نگر( 15پندرہ فیصد)احمد آباد(12فیصد)اور جونا گڑھ(12فیصد)پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں گجرات کے 182اسمبلی حلقوں میں سے زائد از20اسمبلی حلقوں میں مسلم رائے دہندگان قابل ذکر حیثیت کے حامل ہیں۔

لیکن ان میں سے کسی بھی انتخابی حلقے میں مسلمانوں بذات خود فتحیاب کونے کی طاقت نہیں رکھتے مگر ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی انکار محال ہوا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا مستقبل طئے کرنے میں وہ دیگر سماجی تعاون کے ساتھ اسے کامیابی سے ہمکنار ورنہ اسے شرمسار کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات او رمسلمانوں کے محلے
پاکستان سے متصل سرحدی ریاست ہونے کی وجہہ سے بالعموم گجرات دائیں بازو جماعتوں کے لئے نہایت حساس علاقہ کہلایاجاتا ہے جس کی وکہہ سے اکثر وہاں کے باشندوں کا فرقہ وارنہ استحصال کرنے کی سازشوں میں انہی کا ہاتھ کارفرما ہوتا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ گجرا ت سے تعلق رکھنے والے قائدین سوائے مہاتماگاندھی اور ا ن کیساتھ رہنے والوں کے کوئی بھی لیڈر مسلمانوں کو ہمدرد ثابت نہیں ہوسکا۔ او رایساہوا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی اس علاقے کی شناخت بن گئے۔ چنانچہ 1969کے بعد1981پھر1985اس کے بعد1990کے علاوہ 1992اور تاریخ کا بدترین سال2002کا گجرات فسادکی خونخوار او دل سوزیادیں آج بھی گجراتی عوام اور بالخصوص مسلمانوں کے ذہنوں کسی بھیانک خواب کی طرح ور آتی ہیں۔

بے شک مذکورہ فسادات کو بلاتر ددو دائیں بازو کی شرپسند طاقتوں ‘ مدبروں اور مقامی انتظامیہ کے دفاتر ‘ بڑے بڑے تجارتی گھرانوں‘ ذرائع ابلاغ اور کم وبیش تمام سیاسی مفاد پرستوں کی ملی بھگت کا نتیجہ قراردیاجاسکتا ہے۔ لہذا ماضی بعید کے متواتر خونریز فسادات او رخصوصاً 2002کے مسلم کش نرغے نے جہاں لاکھوں مسلمانوں پر زمین سخت آسمان دور کا ماحول طاری کرکے انہیں ہر طرح سے تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہیں بالجبر گپر سے بے گھر کرتے ہوئے بچے کچے مسلمانوں کو چندمحدود مسلم محلوں کا اسیر کردیا۔ نوبت یہ اگئی ہے کہ ان آبادیوں کو سماجی ہم آہنگی سے عاری مذہبی اقلیتی جزیروں جیسی قراردے دیاگیاہے۔

اب یہ عالم ہے کہ( بشمول درگاہ شاہ عالم ؒ کے پناہ گزینوں) کے ہر کوئی ادیڑ کھابڑ راستوں ‘ ڈرنیج نظام کی بدحالی ‘ تاریک سڑکوں ‘ پیسے کے قابل پانی سے محروم بستوں اور سرکاری اسپتالوں یا اسکولوں جیسی دیگر بیشتر شہری سہولتوں سے عاری کچی بستوں میں جینے پر مجبور ہے اور ان کے ان ڈربوں کو ’’ چھوٹا پاکستان‘‘ باور کیاجاتا ہے تاکہ بردارن وطن کی اور مسلم بستیوں کے بیچ نفرت کی مزید چوڑی خلیج قائم کی جاسکے۔

ستم ظریفی دیکھئے کہ 2002کے جاتے جاتے اس ریاست میں موجود بے شمار روادار گاندھیائی انسانوں کو انہی فسطائی تنظیموں نے رفتہ رفتہ وہاں سے دو یا بے اثر کردیا۔مردے پر سودرے کے مصداق دوسخت ظالمانہ قوانین مثلاً گجرات پرروہی بیشن آف ٹرانسفر آف امومیبل پراپرٹی اینڈ پرویزن آف پروٹکشن آف ٹینٹس فروم وامیشن فروم پریمائسیزانڈسیٹیبویٹر ایک مجریہ 1991( جوکہ مختصر اڈڈسٹرڈاریویاز ایکٹ ایک بھی کہلایاجاتا ہے) ان کے نفاذ سے مزید ایسی بستیاں وجود میں لائی گئیں کہ ان حساس علاقوں میں ہندوؤں او رمسلمانوں کے درمیان میں جائیداد کی خرید وفروخت کو ممنوع قراردیاگیا ہے ۔ نتیجاً مسلمانوں اپنی دیڑھ اینڈ کی مسجد کے اطراف واکناف سمٹ گئے ہیں اور ان کا تقریبا معاشی بائیکاٹ کردیاگیا ہے چونکہ بیشتر بینکوں نے انہیں ہاوزنگ لون تک دینا بند کردیا ہے تاکہ وہ اپنی عزت وآبروکی حفاظت کے لئے چند باوقار مکانات تعمیر کریں۔

گجرات مسلم رائے دہندوں کے حال واحوال
ایک قابل تردید حقیقت یہ بھی ہے کہ گجرات میں مسلم طبقے کو اس قدر یکا وتنہا کردیا گیا ہے وہ ملک کی تکثیری شناخت میں یہاں شیر وشکر ہوکر نہیں رہ سکتے ۔ دراصل مسلم رائے دہندگان نے کبھی کس دور میں بھی واحد جماعت کی طرح ووٹنگ نہیں کی۔ جیسا کہ دیگر طبقات کے ذڑیعہ انجام دی جاتی ہے۔

حالانکہ وہ بھی اپنی مذہبی شناخت قائم رکھتے ہوئے ہماری طرح متعدد فرقوں‘ ذاتوں ‘ جماعتوں‘ اور علاقائی تعصب کے تحت ہی کسی امیدوار کو اپنے ووٹوں سے نوازتے یا کسی پارٹی کی حمایت میں پیش رفت کرتے ہیں بلکہ دیگر مسلمانوں کی متفقہ رائے قائم کرنے میں شاذ ونادر ہی کبھی مذہبی شناخت فیصلہ کن روال ادا کرتی ہے۔ لیکن بی جے پی کی ساخت کی طرح مسلمانوں نے کبھی بھی مذہبی بالادستی کے زیراثر ملی اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے بحیثیت واحد قوم کبھی کسی کو ووٹ نہیں دیا

۔تاہم 1962کے بعد سے مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد نے ماضی میں اپنے ووٹوں سے کانگریس کو کامیاب وکامران کرنے کا مزاج بنالیاتھا۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی متواتر کانگریس نوازی بھی معاشی طور پر کبھی انہیںآسودہ اور خوش حال نہیں بناسکی۔ہر بار لبھاؤ نے وعدوں کے ساتھ ا نکے ووٹ بٹورنے کے بعد کانگریس کے عہد میں ان کے مفادات کونظر انداز کیاجاتا رہاہے۔

یہی جواز بی جے پی کو تقویت فراہم کرتا رہا کہ وہ گجراتیوں کو دھرم کے نام پر مسلمانوں سے برگشتہ کرنے میں موثر ثابت ہوا۔مزیدبرآں ‘ مسلمانوں کے سیاسی نمائندگی 1980سے 2012تک مسلسل زوال پذیر ہورہی اور مسلسل اراکین اسمبلی کی تعداد گھٹتے ہوئے 12سے 2تک سمٹ گئی۔یہاں یہ بات قبل غور ہے کہ محض مسلم ووٹوں سے تاحال کوئی مسلم نمائندہ کامران نہ ہوسکا ہے اور نہ ہوگا یعنی نہ تو ماصی میں اور ناہی مستقبل قریب میں گجرات میں مسلم ریاضی کی کامیابی کے آثار ہیں۔کانگریس کو مسلسل ووٹ دینے کے پس وپشت فقط یہ خوف کارفرما رہا کہ بی جے پی کی مذہبی ریشہ دوانیوں کو مات دیتے ہوئے تمام انتخابات میں اسے ہندومسلم کارڈ کھیلنے سے باز رکھا جاسکے۔

بعد ازیں نریندر مودی اپنی مسلم دشمنی تقریروں سے ہند افتخارائی کی علامت بن کر ابھرے۔ اور سال2007کے بعد تقریبا ہر الیکشن میں مذہبی منافرت کی بنایاپر کامیابی حاصل کی۔ پہلی بار 2012میں سدبھاؤنہ مشن کی آڑ میں مودی نے کھلم کھلا مسلم ووٹرس کو رجھانے کی کوشش کی اور گجرات کے مختلف حصوں میں32جگہ پکروڑ اپواس رکھے تاکہ مسلمانوں کے اشرافیہ کو اپنی ریالی میں شرکت پر مائل کرسکیں۔ مذکورہ الیکشن کے بی جے پی منشور میں مدرسوں کے طلبہ کی صلاحیتوں کو فروغ دینے اور انہیں پیشہ جاتی ہنر سیکھانے کا وعدہ کیاگیا تھا۔

اتنا ہی نہیں بلدی او رپنچایتی انتخاب میں اس پارٹی نے مصلحتاً کئی مسلمانوں کو پارٹی ٹکٹ دئے تھے اور اس بات بہت سے امیدوار کامیاب بھی ہوئے۔ یو ں تو بی جے پی پر اعتبار کرتے ہوئے مسلم رائے دہندوں نے بھاری تعداد میں 2012میں بی جے پیکو اسمبلی الیکشن میں نوازدیا۔ اس کی تصدیق سی ایس ڈی ای یس لوک نیتی سروے ڈاٹا میں اسمبلی الیکشن کے حوالے سے بھی کہاجاسکتی ہے ۔ دریں اثناء گجرات کے مسلمانو ں کو آر ایس ایس اور اس کے پریوار کی سخت مسلم مخالف تنظیموں جیسے وی ایچ پی‘ بجرنگ دل اور درگاواہنی‘ سیوا بھارتی او ردیگر کے ایجنڈے سے بھی ہراساں کیاجاتا رہا ہے۔

بہر کیف اس بار مسلم ووٹوں کے اتحاد کی جو لہر چلی ہیاس سے ریاست میں کانگریس کا احیاء کے آثار آشکار ہوچلے ہیں۔ اس بار اتفاق رائے مذہبی خطوط پر نہیں بلکہ برسراقتدار بی جے پی سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہے او راس لئے بھی کہ اس صوبے کی موجودہ حکومت مساویانہ طور پر اقتصادی ترقی سے عوام کو فیضایاب کرنے سے قاصر رہی ہے۔