گجرات کے انتخابی نتائج۔ کانگریس کی قریبی شکست میں راہول گاندھی کی جیت۔

گجرات انتخابی۔ پچھلے ہفتہ135سال قدیم سیاسی پارٹی کی ذمہ داری حاصل کرنے والے راہول گاندھی کے لئے گجرات میں پہلا امتحان تھا اور انہوں نے اپنی نئی اننگ کی شروعات میں بہتر مظاہرہ کیاہے۔کانگریس بھلے ہی گجرات میں بی جے پی کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے مگر وزیراعظم نریندر مودی کے گھریلو میدان میں کانگریس کے شاندار مظاہرے نے نے پارٹی کے نو منتخبہ صدر کے لئے حوصلہ افزاء ثابت ہوا ہے۔

پارٹی لیڈرس کا ماننا ہے کہ یہ کانگریس صدر کی قائدانہ صلاحیتوں اور تنظیموں قابلیت کا پیمانہ ہے۔سال 2014کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سب سے حساس سمجھے جانے والے اس الیکشن کے ووٹ کی گنتی کے اختتام پر کانگریس پارٹی نے ریاست میں نہ صرف اپنی طاقت اور ووٹ شیئر میں اضافہ کیاہے بلکہ بی جے پی کو182اسمبلی حلقوں کی اس ریاست میں تین ہندوسوں تک پہنچانے نہیں دیا۔کانگریس نے سال2012کے مقابلہ 16سیٹوں کے اضافہ کے ساتھ 77سیٹوں پر کامیابی حاصل کی اور رائے دہی کے مطابق41.4فیصد ووٹ حاصل کئے ‘ جو پچھلی مرتبہ کے اسمبلی الیکشن ووٹ شیئر میں دو فیصد کا اضافہ ہے۔

مقامی چہروں کی عدم موجودگی میں 47سال کے راہول گاندھی نے پارٹی مہم کی شروعات کی ‘ اور گجرات کے ویسٹرن علاقوں میں دوماہ سے زیادہ کام کیا۔ستمبر25سے شروع ہوئے اپنے 22روزہ مہم کے دوران راہول گاندھی نے 150ریالیاں اور کارنر میٹنگ کی ہیں۔ انہوں نے پاٹیدار چہرے ہاریک پٹیل او ر او بی سی لیڈر الپیش ٹھاکر سے اتحاد کو بھی یقینی بنایا۔تنظیموں خامیوں کے باوجود 182اسمبلی حلقوں پر بوتھ سطح پر انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے اؤٹ سورسنگ خدمات حاصل کرتے ہوئے پارٹی نے نارتھ گجرات اور سوراشٹر میں شاندار مظاہرہ کیاہے۔

جیسے ہی نتائج کا برآ مد ہونے شروع ہوئے کانگریس کی سابق صدر سونیاگاندھی اور ان کی بیٹی پرینکا واڈرا نے راہول گاندھی سے ملاقات کی ‘ بعد ازاں راہول گاندھی پارلیمنٹ روانہ ہوگئے۔

نتائج کو قبول کرتے ہوئے راہول گاندھی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہاکہ ’’کانگریس کے میرے بھائیواو ربہنو‘ اپ لوگوں نے مجھے وقار بخشا ‘ آپ ان تمام لوگوں سے الگ ہیں جنھوں نے الیکشن غصہ میں لڑا جبکہ آپ لوگوں نے اس کا جواب صبر وتحمل سے دیا۔آپ لوگوں نے سب کا حوصلے اور ہمت کے ساتھ مقابلہ کیاجو کانگریس کی عظیم طاقت ہے‘‘۔انتخابی مہم کے دوران ملی حمایت کی طرف مذکورہ تبصرہ ایک واضح اشارہ تھا۔گجرات انتخابی۔

پچھلے ہفتہ135سال قدیم سیاسی پارٹی کی ذمہ داری حاصل کرنے والے راہول گاندھی کے لئے گجرات میں پہلا امتحان تھا اور انہوں نے اپنی نئی اننگ کی شروعات میں بہتر مظاہرہ کیاہے۔ہماچل پردیش میں شکست کو ئی غیرمتوقع نہیں تھا‘ کیونکہ ہماچل کے اندر ہر پانچ سال میں اقتدار کا تبادلہ عام ہے۔

سال1998سے لیکر اب تک ریاست میں اقتدار سے باہر پارٹی کے گجرات میں بہتر مظاہرے کے لئے کانگریس لیڈر راہول گاندھی کے بہتر مظاہرے کی ستائش کررہے ہیں۔پارٹی جنرل سکریٹری انچارج گجرات اشوک گہلوٹ نے کہاکہ ’’ راہول گاندھی نے بہت بہتر اورمضبط مہم چلائی۔ نتائج جو بھی رہیں ‘ ملک اس کو کانگریس کی فتح کے طور پر دیکھ رہا ہے‘‘۔دیگر قائدین جیسے کمل ناتھ‘ ششی تھرور‘ رینو چودھری نے اس بات پر زوردیاہے کہ گجرات میں مظاہرہ راہول گاندھی کی اثر دار قیادت اور ان کی سیاسی کہانی کی شروعات ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں نے کہاکہ گجرات میں جیت کے متعلق کانگریس کی توقع غیرمتوقع نہیں ہے‘ نتائج بتاتے ہیں کہ مودی کی آبائی ریاست میں ’’بی جے پی کا قلعہ‘‘ میں سیند لگانا زیادہ وقت تک مشکل نہیں ہے۔جواہرل نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر مریدولہ مکھرجی نے کہاکہ ’’ اس الیکشن میںیہ ثابت ہوگیا ہے کہ مذکورہ گجرات ایک وہ علاقہ نہیں رہا ۔ ایک سو اور80کے درمیان کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔

اب یہ کس کا بھی کھیل ہوسکتا ہے‘‘۔اگلے سال مارچ میں کرناٹک کے حساس انتخابات سے قبل راہول گاندھی کا اگلا پڑھاؤ چار نارتھ ایسٹرن ریاستیں میگھالیہ ‘ ناگالینڈ اور تریپورہ میں ہوگا‘ بی جے پی مذکورہ ریاستوں کو کانگریس سے چھیننے کی شدت کیساتھ کوشش کریگی۔مکھرجی نے کہاکہ راہول گاندھی کو 2019کے لوک سبھا انتخابات میں مقابلے کے لئے قومی او رعلاقائی پارٹیوں سے اتحاد کے لئے عاجلانہ بات چیت کی شروعات کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ ’’ اس کی انہیں ابھی سے شروعات کرنی ہوگی‘ سب کو ایک پلیٹ فارم پرجمع کرتے ہوئے بااثر متبادل پیش کرنا ہوگا‘‘۔ راہول گاندھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہو ں نے کہاکہ مشکل اتحاد کی تیاری کے لئے انہیں اپنی ماں کی صلاحیتوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے جنھوں نے 2004میں نظریاتی اختلافات کے باوجود بائیں بازوجماعتوں کو ساتھ لیکر یوپی اے حکومت کی تشکیل عمل میں لائی تھی۔