گائے کا گوشت حقیقی مسئلہ نہیں…!

محمد مبشرالدین خرم
ملک بھر میں موجود مسائل کے حل کے بجائے قومی سطح پر صرف ایک ہی موضوع سیاستدانوں کا پسندیدہ بنا ہوا ہے اور ہر کوئی گوشت پر بحث کے ذریعہ کئی اہم مسائل کو نظرانداز کرنے کی سمت مائل نظر آرہا ہے۔ ہندوستانی سیاست میں گوشت کا استعمال کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے۔ فی الحال جو صورتحال ملک کی ہے، اس صورت میں تو قطعی طور پر یہ مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل نظر نہیں آتا، بلکہ ملک کو معاشی بحران سے بچانے کے علاوہ فرقہ پرستی سے محفوظ رکھنے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور یکجہتی کی بقاء کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر حالیہ عرصہ میں گاؤکشی پر امتناع سب سے بڑ ے مسئلہ کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے اور نہ صرف سیاسی قائدین اس مسئلہ پر بیان بازی کے ذریعہ اہم موضوعات سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں مصروف ہیں بلکہ بعض فرقہ پرست قوتیں گاؤ کشی کے مسئلہ کو فرقہ وارانہ منافرت کا ذریعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہندوستان میں گائے کے گوشت کے استعمال کی تاریخ کافی قدیم ہے اور گائے کا گوشت صرف مخصوص طبقہ یا فرقہ کے لوگ نہیں کھاتے بلکہ اکثریتی طبقہ میں بھی کئی ایسے طبقات موجود ہیں جن کے ہاں گائے کا گوشت استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن 2014 عام انتخابات کے بعد ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں ترقی کے ساتھ ساتھ ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘‘ کی امید رکھنے والوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جن لوگوں نے ترقی کے نعرے کا ساتھ دیا ، وہ لوگ کہیں بغاوت نہ کردیں اس لئے ملک بھر کے عوام کو ایسے موضوعات میں الجھایا جارہا ہے جن میں الجھ کر وہ سوال کرنے کے قابل نہیں رہتے۔

2014 ء میں ہندوستان میں جو حالات رونما ہوئے، اس کا فائدہ درحقیقت سنگھی نظریہ کو ہوا اور نریندر مودی کو ملک کے جلیل القدر عہدہ پر فائز ہونے کا موقع ملا لیکن مودی کا اقتدار فرقہ پرستی کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ ترقی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے انہوں نے اقتدار حاصل کیا اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد جو بیانات سامنے آئے ، اسے دیکھتے ہوئے یہ توقع کی جانے لگی تھی کہ واقعی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا لیکن ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے جو چولا پہنا تھا اس چولے کو اندرون ایک سال زعفرانی فرقہ پرست قوتوں نے ہی چاک کردیا لیکن اس کے باوجود ملک کے سیکولر سیاسی قائدین کے علاوہ عوام پر اثرانداز ہونے والے افراد کی جانب سے اس حقیقت کو آشکار کرنے کی کوششیں نہیں کی جارہی ہیں جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔
ہندوستانی سیاست میں گاؤ کشی کے مسئلہ پر منافرت کے ماضی میں کچھ واقعات ضرور ملتے ہیں لیکن مہاراشٹرا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار حاصل ہونے کے بعد حکومت مہاراشٹرا بڑے گوشت پر مکمل امتناع عائد کرتے ہوئے ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے اور یہ بحث نہ صرف مہاراشٹرا تک محدود رہی بلکہ سارے ملک میں اس مسئلہ پربحث ہونے لگی کہ آیا گاؤ کشی پر امتناع کی مخالفت کرنے والے درست ہیں یا نہیں اور جو لوگ قومی سطح پر امتناع عائدکرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان کے موقف پر حکومت کا کیا نظریہ ہے؟ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے گائے کا گوشت کھانے والے کو پاکستان چلے جانے کا بچکانہ مشورہ دیتے ہوئے شاید وزیراعظم کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے جواب میں مرکزی وزیر کرن رجیجو نے جو بیان جاری کیا باعث حیرت ثابت ہورہا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ گائے کا گوشت ہندوستان میں صرف مسلمان ہی استعمال نہیں کرتے بلکہ گائے گوشت کی بہت بڑی صنعت سے کئی ایسے طبقہ کے افراد جڑے ہوئے ہیں جو گائے کا تو کیا کوئی بھی گوشت کھانے سے گریز کرنے والے کہلائے جاتے ہیں۔ ملک میں گاؤ کشی پر امتناع کی صورت میں جو صورتحال پیدا ہوگی اس کا اندازہ کرنا دشوار نہیں ہے لیکن اس کے ملک کی معیشت پر جو اثرات مرتب ہوں گے ، وہ نہ صرف حکومت بلکہ عوام کے لئے تکلیف کا باعث ثابت ہوں گے۔ ہندوستان میں نریندر مودی کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد فاشسٹ قوتوں کی جانب سے اقلیتوں میں خوف و دہشت پھیلانے کی کوشش کی جانے لگی ہے لیکن اس صورتحال پر کوئی بیان بازی نہیں ہورہی ہے۔ کوئی وزیر عیسائی مشنری یا مسلمانوں پر ہونے والے حملوںکی مذمت نہیں کر رہا ہے اور نہ ہی اس طرح کے واقعات سے خوفزدہ ہونے والے طبقات میں خود اعتمادی پیدا کرنے اور انہیں احساس عدم تحفظ سے باہر نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ہندوستان میں ایک طبقہ ضرور گائے کو مقدس مانتا ہے لیکن اس طبقہ سے جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے ایک چبھتا ہوا سوال کیا جس کے جواب میں انہیں نہ صرف ہتک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امیت شاہ کے بیان کے حوالہ سے بالواسطہ طور پر دھمکی دی جانے لگی ہے جس میں امیت شاہ نے کہا تھاکہ کاٹجو صاحب گجرات میں گائے کا گوشت کھاکر دکھائیں۔ اس طرح کے موضوعات پر سیاسی قائدین اپنی توانائی ضائع کرتے ہوئے عوام کو غیر اہم مسائل میں الجھا رہے ہیں۔ بلبھ گڑھ میں فسادات ہوں یا مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کیلئے مسائل پیدا کئے جانے لگے یا پھر دہلی میں چرچ پر حملہ یا اڈیشہ کے مواضعات میں عیسائی طبقہ کو خوفزدہ کرنے کے واقعات ہوں، ان واقعات پر جتنی بحث ہونی چاہئے تھی ، ان پر تو کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے بلکہ گاؤ کشی جیسے موضوعات پر بحث و مباحث کے ذریعہ اسے انتہائی اہم قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان بین الاقوامی بازار میں گائے کا گوشت درآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور ہندوستان کی معیشت کا خاصہ حصہ اس تجارت سے جڑا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر برازیل کے بعد سب سے زیادہ گوشت کی درآمدات ہندوستان سے ہی ہوتی ہے اور گزشتہ ایک برس کے دوران ہندوستانی درآمدات میں 5 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہیں۔ امریکی محکمہ زراعت کے بموجب چین کے علاوہ بیف کا استعمال کرنے والے دیگر ممالک میں بڑھتی طلب کے سبب یہ اضافہ ہورہا ہے اور سال گزشتہ اکتوبر میں ہندوستان نے 1.95 ملین ٹن گوشت دوسر ے مختلف ممالک کو روانہ کیا ہے۔
ہندوستانی معیشت میں ریکارڈ کی جارہی گراوٹ پر اگر توجہ دی جائے تو ممکن ہے کہ حکومت کو شدید عوامی برہمی کا سامنا کرنا پڑے چونکہ گزشتہ ایک برس کے دوران روپئے کی قدر میں کافی گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے اور ڈالر کے مقابلہ روپئے کی قیمت 62 روپئے سے آج 66 روپئے تک پہنچ چکی ہے لیکن اس کے باوجود ماہر معاشیات کے علاوہ بڑی اور ملک کی فکر کرنے والی سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی نظر آرہی ہیں۔ یو پی دورہ حکومت میں روپئے کی قدر میں گراوٹ پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے محترمہ سشما سوراج نے روپئے کی قدر میں بہتری پیدا کرنے کا نہ صرف مطالبہ کیا تھا بلکہ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صدر جمہوریہ سے شکایت بھی کی تھی لیکن اب جبکہ عالمی سطح پر ڈالر کے مقابلہ میں روپئے کی قیمت گھٹتی جارہی ہے، اس کے باوجود کوئی ردعمل سامنے نہیں آرہا ہے ۔ اسی طرح پٹرول کی قیمت میں ہورہے بتدریج اضافے پر بھی سیاسی جماعتوںکی خاموشی سے ایسا محسوس ہورہاہے کہ اقتدار حاصل کرنے والے اور اپوزیشن کی نشستوںپر براجمان دونوں ہی عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے ملک کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ ہندوستان میں گائے کے گوشت پر مکمل پابندی کا تصور بھی محال ہے چونکہ گائے کا گوشت ہندوستان کی نصف سے زائد آبادی کیلئے بہترین پروٹین کی حامل غذا تصور کیا جاتا ہے اور دلتوں کے علاوہ درج فہرست طبقات جن کی تعداد ملک بھر میں50 فیصد سے زائد ہے، وہ اس گوشت کا استعمال کرتے ہیں لیکن گائے کے گوشت کے استعمال سے مسلمانوں کو جوڑتے ہوئے اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ نوعیت کا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور مختار عباس نقوی کے بیان نے تو تمام حدیں پار کردیں بلکہ یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ انہوں نے تو گوشت کھانے والوں کو سرحد پار چلے جانے کا مشورہ دیتے ہوئے حدیں ہی نہیں سرحدیں پار کردیں۔ ہندوستانی عوام نے جو 10 سالہ بدعنوانیوں و بے قاعدگیوں کے علاوہ مایوسی کے دور سے عاجز آچکے تھے، ایک ایسے شخص سے امیدیں وابستہ کرلی تھیں جو حقیقت میں سراب تھا اور وہ ثابت بھی ہونے لگا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار سے پارٹی قائدین کو کیا فائدہ ہورہا ہے ، اس کا اندازہ لگانا دشوار ہے لیکن وزیراعظم نے بیرونی دوروں کے ذریعہ مختلف ممالک میں موجود ہندوستانیوں سے تو ملاقات کرلیں مگر ہندوستان میں موجود ہندوستانی ان سے 15 لاکھ روپئے کے علاوہ ترقی ، سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کے متعلق چائے پہ چرچہ کے منتظر ہیں۔ شاید رائے دہندے اپنے فیصلہ پر کف افسوس مل رہے ہیں لیکن وشوا ہندو پریشد، آر ایس ایس، بجرنگ دل ، اور دیگر فرقہ پرست تنظیمیں اپنے طویل مدتی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے نفرتوں کا بازار گرم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان تنظیموں پر لگام کسنے کے بجائے انہیں کھلی چھوٹ فراہم کی جارہی ہے تاکہ وہ نفرت کی سیاست کے فروغ کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کو منقسم کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں۔

موجودہ صورتحال میں ملک کی امن پسند و سیکولر عوام کے ساتھ سنجیدہ، دوراندیش قیادتیں اگر متحد ہوتے ہوئے حقیقی مسائل کو موضوع بحث بنانے کیلئے آگے آتے ہیں تو ایسی صورت میں حکومت یا پھر شرپسند عناصر ہندوستانی عوام کو گائے کے گوشت کے مسئلہ پر تقسیم کرنے میں یا اسی مسئلہ پر الجھائے رکھنے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔ ہندوستان میں کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں گاؤ کشی پر کسی قسم کا امتناع عائد نہیں ہے بلکہ کیرالا ، منی پور ، میزورم ، میگھالیہ ، اروناچل پردیش میں تو گاؤ کشی کیلئے کسی کے سرٹیفکٹ کی ضرورت نہیں ہے ۔ بعض ریاستیں گاؤ کشی کی اس وقت اجازت دیتی ہے جب بڑے جانور دیگر استعمال جیسے دودھ دینے یا ہل چلانے کے قابل نہیں رہتے، اسکے سرٹیفکٹ پیش کئے جانے پر یہ جانور ذبحہ کئے جاسکتے ہیں۔
infomubashir@gmail.com
@infomubashir