کیا یہ بی جے پی کے زوال کا آغاز ہے؟۔ خالد شیخ

فلم دیوار کے ایک منظر میں امتیابھ بچن کے سوال پر کہ میرے پا س سب کچھ ے تمہارے پاس کیاہے۔ ششی کپور جواب دیتے ہیں’’ میرے پاس ماں ہے‘‘۔اسی طرح اگر کوئی بی جے پی لیڈروں سے سوال کرے کہ کانگریس کے پاس پاٹیدار ‘ دلت او راو بی سی ہیں تمہارے پاس کیا ہے تو جوجواب ہوگا ’ہمارے پاس مودی ہیں‘سچ بھی یہی ہے کہ مودی ہیں تو بی جے پی ہے۔ کیونکہ مودی جیسا اولولعزم ‘ شاطر سیاست داں ‘ اعلی پائے کا مقرر‘ سلیس مین اور اداکار کسی پارٹی میں نہیں اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو مثبت رخ دیتے تو ان کا وجود ملک وقوم دونوں کے لئے سود مند ہوتا۔ بدقسمتی سے وہ کٹرہندوتوا وادی ہیں اور مقصد برآری کے لئے مکھوٹے بدلتے رہتے ہیں ۔

مسلم کش فسادات نے اہیں ہندو ہردے سمراٹ بنادیا اور وزیراعظم بننے کا سودا سر میں سمایا تو ‘ سدبھاؤنا مشن ‘ شروع کیا ‘ لوک سبھا کی انتخابی مہم میں ڈیولپمنٹ ‘ سب کا ساتھ سب کا وکاس او راچھے دنوں کا خواب دیکھاکر وہ وکاس پتر بنے او رپردھان منتری بننے کے بعد انہو ں نے اپنے آپ کو پردھان سیوک کہلانا پسند کیا۔ پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائک ‘ نوٹ بندی‘ اور جی ایس ٹی کے ذریعہ انہوں نے نونان سنس لیڈر کی شبیہ بنانے کی کوشش کی لیکن اپنے ہی بھکتوں سے ہار گئے اور اقلیتوں اور دلتوں پر ہونے والے ظلم وتشدد کا کوئی مداوانہ کرسکے۔

بھولے بسرے کبھی ان کی دریدہ دہنی اور دھاندلیوں کے خلاف زبان کھولی بھی تو بھکتی نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا نہ مودی نے اصرار کیا۔ مودی کا ہندوتوا وادی چہرہ الیکشن کے موقع پر کھل کر سامنے آتا ہے۔ گجرات میںیہی دیکھنے کو ملا۔ انہو ں نے ابتدامیں رسمی طورپر ڈیولپمنٹ کا ذکر کیا‘ شیخی بگھاری اور پھر پٹری بدل دی جس کی وجہہ کوئی نہیں راہل گاندھی تھے جو انتخابی مہم میں ایک نئے اوتار میں نظر ائے۔وسیع پیمانے پر تشہیری مہم میں حصہ لینے والے راہل نے بہتر اور نپی تلی حکمت عملی کے تحت ‘ تہذیب وشائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو تیور دکھائے اس نے مودی خیمے میں ہلچل مچادی اور اپنے بارے میں خیالات بدلنے پر مجبور کردیا۔

بڑے پیمانے پر عوامی رابطے کے ساتھ انہوں نے ریلیوں میں غربت‘ بے روزگاری ‘ نوٹ بندی ‘ جی ایس ٹی او رکسانوں کو خستہ حالی جیسے مسائل کو اٹھایا‘ لوگوں نے انہیں سنجیدگی سے لیا۔ کسی بھی گوشہ سے انکا مذاق اڑایا گیا۔ اسی طرے سوشیل میڈیا کے موثر استعمال سے ان کے فالورس کی تعداد دسمبر 2016کو 1.21ملین سے دسمبر 2017میں 4.69ملین ہوگی۔ راہل نے مودی کو ان کے وعدے یا ددلاتے ہوئے ان سے چودہ سوالات کئے جن کا جواب مودی نے نہیں دیا۔ راہل او رہاردیک پٹیل کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مودی نے پرانا حربہ آزمایا‘ اورفرقہ وارانہ سیاست پر اتر ائے۔

راہل کے مذہب پر سوال اٹھایا‘ سپریم کورٹ میں مسجد ۔ مندر تنازع کی سماعت کو ملتوی کرنے کی درخواست سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کانگریس رام مندر کی تعمیر کے خلاف ہے‘ احمد پٹیل کوہندوتوا لیباریٹری کا پہلا مسلم وزیر اعلی بنانے او رمنی شنکر ائیر کے گھر پر ہوئے ڈنر میں من موہن سنگپ اور حامد انصاری کی شرکت کو بی جے پی کو ہرانے کی پاکستانی سازش قراردیا۔ بی جے پی خیمہ میں گھبراہٹ کاعالم تھا کہ مودی نے منصبی ذمہ داریاں تج کر گجرات میں تین درجن سے زائد ریلیوں سے خطاب کیا۔تیس مرکزی وزراء ‘ بی جے پی وزرا‘ اعلی اور یوپی کے یالیہ نگر نگم الیکشن میں منتخب ہونے والے چودہ میئر کو میدان میں اتارا اور گھر گھر پر چار کے لئے آر ایس ایس کے ہزاروں ورکرس کو مامور کیا۔ ان حالات میں اگر بی جے پی ہارتی تو یہ پارٹی کی نہیں مودی ۔

امیت شاہ جوڑی کی ہار ہوتی کیونکہ گجرات ان کی آبائی ریاست ہے نتائج نے ثابت کردیا کہ مودی کا جادو تو چلا لیکن راہل کی محنت رنگ لائی۔ امیت شاہ کا150یا اس سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا دعوی ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ ووٹنگ اوسط میں اضافے کے باوجود بی جے پی کی سٹیں گھٹی اور وہ پہلی بار سنچری کاجادوٹی آنکڑ پار نہ کرکے99پر آوٹ ہوگئی جبکہ کانگریس کو ووٹنگ اوسط کے ساتھ سیٹوں کی تعداد میں اضافہ حاصل ہوا جو گذشتہ الیکشن کے 61کے مقابلے77ہے اور اتحادیوں کی سیٹیں ملاکر 80ہوجاتی ہے۔ انتخابی مہم کی طرح ووٹنگ کی گنتی میں سنسنی اور سپسنس کا عنصر شامل تھا۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب بی جے پی کی80کے مقابلے کانگریس کو 5سیٹیوں کی بڑھت حاصل تھی۔ گنتی کے اتار چڑھاؤ کے اس کھیل کا خاتمہ نتائج کے حتمی اعلا ن کے بعد ہوا۔ جیت یت ہوتی ہے ایک ووٹ سے ہویا ایک سیٹ سے ۔ اس لئے مایوس کن نتیجے کے باوجود بی جے پی کو جشن منانے کا پورا حق ہے لیکن یہ نتیجہ دونوں پارٹیوں کو خود احتسابی کی دعوت بھی دیتا ہے۔الیکشن میں بی جے پی اسپیکر سمیت تقریبا دس لیڈروں اور وزراء کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ ساڑھے پانچ لاکھ ووٹروں نے ’’نوٹا ‘‘ بٹن کا استعمال کیا جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے حریف بی جے پی او رکانگریس پر ان کا اعتماد متزلز ل ہوا ہے۔

بی جے پی کی ماڈل اسٹیٹ نے بھی ثابت کردیا کہ زعفرانی کیمپ میں سب کچھ ٹھیک نہیں‘ مودی ناقابل تسخیرنہیں‘ انہیں چیلنج کیاجاسکتا ہے‘ ذات پات اور فرقہ وارنہ سیاست کے کچھ حدود ہوتے ہیں اور عوامی مسائک کے سامنے ان کی چمک ماند پڑجاتی ہے۔راہل گاندھی نے انتخابی مہم میں اپنے رویے سے سیاست کو مثبت رحجان عطا کیا اور امید سے کہیں بہتر پرفارمنس دیا۔ کانگریس کے صدر بننے کے بعد ان کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہیں۔ انہوں نے نوجوان لیڈروں کے جوش اور سینئر لیڈروں کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کا اعلان کیا ہے اگر وہ اس میں اتحادیووں کو ساتھ رکھنے اور نئے اتحادی بنانے کی کوششوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بی جے پی کاکانگریس مکت بھارت بنانے کا خواب چکنا چور ہوجائے گا۔