کیا ہندوستان میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ضروری ہے؟۔

پالیسی میں شامل کرنا‘ پالیسی کے ایک مسلئے کو اجاگر کرنا ‘ اس کے اردگرد بحث اور مباحثہ تیار کرنا‘مختلف مکاتب فکر اور ان کی اختیار کو اس میں شامل کرنا۔
لاء کمیشن نے عوامی سے اپنی تازہ اپیل میں کہاہے کہ وہ یکساں سیول کوڈ( یوسی سی)پر تبصر ہ کریں تاکہ اس پر بحث کے ذریعہ تمام کمیونٹیوں کے لئے ضروری عام قانون تیار کیاجاسکے۔

یوسی سی کے متعلق آپ کے لئے ضروری جانکاری؟
مسئلہ یہ ہے کہ لاء کمیشن آف انڈیانے یکساں سیول کوڈ( یوسی سی ) پر بحال شدہ خیالات کے لئے 6اپریل کوایک تازہ اپیل عوام سے جاری کرتے عوامی رائے مانگی ہے۔تمام اقوام اور طبقات کے پرسنل کو ایک کرکے قانون بنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔

دستور ہند تمام اقوام او رطبقات کو انفرادی طور سے ان کے عقائد کے مطابق پرسنل پر چلنے کی منظوری دیتا ہے‘ اس کے علاوہ شادی ‘طلاق‘وراثت‘ برتری اور گود لینے کے عمل بھی اس میں شامل ہے۔

اس مسلئے کی قدرتی برقراری کے لئے دستور کے ارٹیکل 25کے حوالے سے مذہبی تبلیغ اور عقائد کی بنیاد پر عمل کرنے کو آرٹیکل44کے تحت بنیادی حق قراردیاگیا ہے اور ریاستیں شہریوں کے ایک یکسا ں سیول کوڈ کے ذریعہ ملک میں تحفظ کاکام کرتے ہیں جوکہ ریاست کے اصولی ہدایتوں کا حصہ بھی ہے۔

پچھلے دو دہوں سے یوسی سی ایک سیاسی گرما گرم بحث کا موضوع بنا ہوا ہے ‘ بالخصوص اس وقت سے جب بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) نے 1998میں اس کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنایا۔ بی جے پی کی مخالف جماعتیںیوسی سی کو سیاسی موضوع بنانے کی پہل کررہے ہیں۔

جون 2016میں اس وقت کے قانون منسٹر دی وی سدانند گوڑا نے لاء کمیشن کو ایک حوالہ روانہ کرتے ہوئے کہاکہ جانچ کی بات کہی تھی کہ کیایہ صحیح وقت ہے کہ یونیفارم سیول کوڈ نافذ کیاجائے۔پھر اسکے بعد 21ویں لاء کمیشن جس کی نگرانی جسٹس بی ایس چوہان نے کی تھی اورجس کی معیاد اگست31کو ختم ہوگئے نے اس ضمن میں ایک رپورٹ میں داخل کی۔

قبل ازیں ہندوستان ٹائمز کو دئے گئے انٹریو میں جسٹس چوہان نے کہاکہ اگر کمیشن کو جامع قانون بنانے میں دشواری پیش آتی ہے تو مخصوص مذہبی قانون میں تبدیلی یعنی مختلف مذاہب کے فیملی قوانین میں تبدیلیاں لائی جائیں گی۔سیاسی پلیٹ فارم پر یہاں پر یکساں سیول کوڈکے ضمن میں بڑی مخالفت ہے۔

اکٹوبر2016میں لاء کمیشن نے عوام او رسیاسی جماعتوں سے رائے حاصل کرنے کے لئے سوالات کا ایک پرچہ جاری کیاتھا۔ کمیشن کے پاس پہلے سے ہی 45,000ردعمل ہیں۔سیاسی جماعتوں کی رائے اس معاملے میں بلکل الگ ہے‘ وہ کمیشن کو راست جواب دینے سے انکار کررہا ہے۔

کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ ( اے ائی ایم پی ایل بی) نے لاء کمیشن کے افسروں سے 2016اکٹوبر کو ملاقات کرتے ہوئے اس تمام کاروائی کی بائیکاٹ کا اظہار کیا۔اے ائی ایم پی ایل بی کا کہنا ہے کہ یوسی سی ان کے لئے قابل قبول نہیں ہے اور اسلامی قوانین ان کے لئے موثر ہیں۔

اے ائی ایم ائی ایم جس کا واحد رکن پارلیمنٹ ہے اور اس کے صدر اسدالدین اویسی نے لاء کمیشن سے تحریری نمائندگی میں کہاکہ یہ پہل مسلمانوں کی ذاتی امور میں غیرضروری مداخلت ہے۔کانگریس نے اس کو بی جے پی کی زیرقیادت حکومت کا ’’ سیاسی اقدام‘ ‘ قراردیا ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا( مارکسٹ) کا کہنا ہے کہ ’’ سونچی سمجھی‘‘ مشق ہے۔ بی جے پی کی ساتھی شرومنی اکالی دل نے بھی اس پہل کے خلاف انتباہ دیا ہے۔بی جے پی نے لاء کمیشن میں اپناکوئی جواب درج نہیں کرائی ہے مگر یوسی سی پر وہ بڑے پیمانے پر ووٹ اکٹھا کررہے ہیں۔

اپنی2014کے انتخابی منشور میں پارٹی کے قدیم وعدہ کا اعادہ کیاہے’’ تاکہ ایک یونیفارم سیول کوڈ ‘ تیار کیاجاسکے جو عصری دور کے ساتھ قدیم تہذیب سے ہم آہنگ ہوگا‘‘۔یہی وعدہ1998سے لیکر 2009تک کیاگیا تھا۔ شیو سینا نے یوسی سی کی حمایت کی ہے۔

سیول سوسائٹی کا کہنا ہے یہ تقسیم کرنا کا موضوع ہے۔ کچھ لوگ یوسی سی کی مخالف کررہے ہیں جو اکثریت میں ہیں‘ وہیں جبکہ دیگر جنسی حسیاست کی بنیاد پر اس کے نفاذ کی بات کررہے ہیں۔