کیا پاکستان کی راہ پر جارہا ہے انڈیا۔ شکیل شمسی کا سوال

پاکستان کو آج جن مسائل کا سامنا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ سخت گیری اورشدت پسندی ہے۔ سخت گیر ذہنیت کے نتیجے میں ہی ہاں لشکر‘ جیش‘ اور سپاہ کے نام سے درجنوں جنگجو تنظیمیں بن گئیں۔ ان میں سے کچھ تنظیمیں ایسی تھیں جن کے نشانے پر ہندوستان تھا او رکچھ تنظیمیں ایسی تھیں جن کے نشانے پر اقلیتیں تھیں۔ اس کے علاوہ جماعت کے نام پر بھی شدت پسندی کو فروغ دینے والے گروہ بنائے گئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہندوستان میں بھی ایسی تنظیموں او رجماعتوں کی کوئی کمی نہیں ہے جنھوں نے اپنے جنگجو ہونے کا اشارہ کرنے کے لئے نام میں ہی سینا کالفظ جوڑ رکھا ہے۔

ہر اُردو جاننے والا یہ بات جانتا ہے کہ لشکر‘ جیش اور سپاہ کا ترجمہ ’سینا ‘ ہی ہوتا ہے یعنی شیوسینا کا اگر گوگل پر لفظی ترجمہ کری ں تو ’ لشکر شیو‘ ہی لکھا جائے گا ‘ اسی طرح اگر ہم رام سینا کا ترجمہ کریں تو اس کا نام ’ جیش رام‘ لکھے گا ہمارا کمپیویٹر کرنی سینا سپاہ شائد لکھ دے گوگل او راگر ہم ان کے کاناموں کے بارے میں لکھیں تو تھوڑا سا بھی فرق نہیں ملے گا۔حالانکہ ہمارے ملک میں جب سینائیں بننا شروع ہوئی ں تو اس میں سب سے پہلا نام دلت سینا کا تھا جو دلتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے سرگرم تھی‘ پھر شیوسینا کے نام سے بال ٹھاکرے نے ایک جنگجو گروپ بنایاجو ابتدائی داوں میں جنوبی ہند کے باشندو ں کے خلاف سرگرم تھا جو ممبئی میں بڑی تعداد میں آباد تھے‘ لیکن بعد میں بال ٹھاکرے نے شمالی ہند کے لوگوں کے خلاف بھی زہر افشانی شروع کردی اور پھر کچھ ہی دنوں بعد انہو ں نے ہندوتوا کا چولا اوڑھ لیااور فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے والے بیانات دینے لگے۔

شیوسینا سے حکومت بھی دبنے لگی او رپھر شیوسینا کو مہارشٹرا میں ایک بڑی سیاسی قوت بننے کا موقع ملا تو سینا کا لفظ پسندیدہ بن گیا او رہندوستان بھر میں سینائیں سرگرم ہوگئیں۔ اب ت وحال یہ ہے کہ کوئی گروپ اپنے آپ کو سینا کہہ کر متعارف کرواتا ہے او رنیوز چیانل اس کے بھڑکانے والے بیانات کو نشر کرنے لگتے ہیں۔اگر آپ پاکستان کے ساتھ موازنہ کریں تو دیکھیں گے کہ ادھر کی سیناؤں او رادھر کے جنگجوگروہوں کی زبان میں کوکوئی فرق نہیں ہے‘ اسی طرح وہاں کی شدت پسند تنظیموں او ریہاں کے سخت گیر گروہوں کے درمیان میں کافی مماثلت ہے‘ وہاں جماعت الدعوۃ تو یہاں ہندو مہاسبھا ہے ‘ وہاں تحریک طالبان پاکستان اپنے نظریات سب پر تھوپتی ہے تویہاں پر گلی گلی میں گاؤ رکشک ان ہی کی طرح خون بناتے پھررہے ہیں۔

وہاں توہین رسالت کے نام پر ہجوم کسی کب بھی گھیر کر ماردیتا ہے تو یہاں بھی مشتعل بھیڑ کسی کو گائے کسی کو گائے کی تسکری کرنے کے نام پر موت کے گھاٹ اتاردیتی ہے ۔ وہاں کی تنظیمو ں کے پاس پاکستان سے محبت دیکھانے کے لئے صرف ہندو مخالف نعرے ہیں او ریہا ں بھی ملک کے ساتھ اپنی وفاداری دکھانے کے لئے پاکستان کو گالی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے‘ لیکن بات اب پاکستان کی مخالفت سے زیادہ اگے بڑھ چکی ہے۔اب تو ہندوؤں کو ہی قتل کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ سنجے لیلا بھانسالی کا سراتارنے والووں کو پانچ کروڑ کا انعام دینے کااعلان کیاجارہا ہے۔

دیپکا پدوکون کی ناک کاٹنے کی دھمکیاں نیشنل ٹیلی ویثرن پر نشر کی جارہی ہیں‘ مگر حکومت اس کو نذر انداز کررہی ہے۔ جبکہ ہماری خفیہ اداروں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اچانک نہیں پھیلی بلکہ وہا ں پر اتبداء میں سپاہ صحابہ او رلشکر جھنگوی جیسے گروہ بنے جو مسلکی بنیادوں پر قتل وغارت گری کرتے تھے لیکن بعد میں وہی گروہ الگ الگ ناموں سے بلاتفریق مسلک ومکتب قتل وغارت گری کرنے لگے او ربات یہاں تک پہنچ گئی کہ پاکستانی دہشت گرد اسکولوں اور فوجی کیمپوں کو بھی نشانہ بنانے لگے۔

پاکستان کے حالات دیکھتے ہوئے ہم حکومت ہند کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ وسخت گیر عناصر کے خلاف ایک ملک گیر پالیسی مرتب کرکے ایسے گروہو ں کو غیر قانونی قراردے جن کے آگے سینا کا لفظ لگا ہے۔ سینا کا لفظ بھارتیہ سینا کے لئے ہی جچتا ہے ‘ لہذا اسے انڈین آرمی کے لئے مخصوص رکھا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میڈیا پر دھمکیاں جاری کرنے والوں کے خلاف تادیبی کاروائی کے ساتھ ساتھ ان چیانلوں کے خلاف بھی کاروائی ہوجو کس کا بھی اول فول بیان نشر کردیتے ہیں۔