کیا خلیج میں معاشی بالادستی ختم ہونے کو ہے؟۔

سال 2017مشرقی وسطی کے لئے کئی اہم واقعات کا سال رہا۔ اس سال کو ’’ تقسیم خلیج‘‘ کا سال بھی کہاجاسکتا ہے جس میں روایتی حلیف اوردوست ایک دوسر ے کے سر ہوگئے ۔ گلف کو اپریشن کونسل کا بحران اس سے زیادہ ناگفتہ بہ حالات میں پید نہیں ہوسکتا تھا ‘ وہ بھی ایسے خطے کے لئے جو پہلے سے تیل کی قیمتوں میں کمی او رعالمی معاشی مندی سے ابھر نہیں سکاتھا۔ یہی وہ سال ہے جس میں سعودی عرب نے جو عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور طلوع اسلام کی سرزمین ہے ‘ ڈرامائی تبدیلیاں دیکھیں۔اب یہ حکومت کھل رہی ہے اور میرے خیال میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں وہ خاصی خوش ائند ہیں۔ سعودی خواتین کو موٹر گاڑیوں چلانے کی اجازت دی گئی ہے وہ انہیں بااختیار بنانے کی جانب اہم قدم ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کوئی بڑا قدم نہیں ہے ‘ لیکن ایک اہم قدم ضرور ہے ۔ چند مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی جب تبدیلیوں کی جانب گامزن ہے ان کا محرم معاشی مفادات ہیں اور انہیں دل سے کی جانیوالی تبدیلیاں کہنا درست نہ ہوگا۔ ایسے کہنے والے بخل ہی سے کام لے رہے ہیں اور یہ معاملے کو دوسرا رخ دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اگر وہ اپنے خیال کودرت ٹھرادیں تب بھی یہی کہنا چاہوں گا کہ تبدیلی کی محرک چاہئے جو چیز ہو ‘ یہ تبدیلی کافی عرصہ سے معرض التواء میں تھی اور اب جبکہ ان کی جانب قدم اٹھنے لگے ہیں‘ ان کا خیر مقدم کیاجاناچاہئے۔

سعودی عرب کا رقبہ ‘ معیشتکی وسعت اور خطے میں اس کی اہمیت بیز اثر روسوخ کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جو تبدییاں سعودی عرب میں ائیں گی ‘ ان کااثر مشرقی وسطی کے دیگر ملکوں پر بھی پڑے گا اس لے اس تبدیلی کو نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے۔اس منظر نامہ سے یہ نتیجہ اخذ نہیں جاناچاہئے کہ خلیجی معیشتوں یا مسلم ملکوں نے کچھ نہیں کیا۔

کئی ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات نے تیل کی دولت کو نہ صرف محسوس کیابلکہ اس کے صاحب بصیرت سربراہ شیخ زائد بن سلطان النہیان کو یہ بھی اندازہ تھا کہ یہ دولت کسی دن ہوا ہوجائے گی اس لئے انہو ں نے تیل پر انحصارکم کیا اور معیشت کو متبادل نظام سے آشنا کیا۔ اس نے انفرسٹکچر پر خر چ کیا ‘ سیاحت کو فروغ دیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے عوام پر خرچ کیا۔

ایسی ہی مثال دبئی کی ہے جس کے پاس تیل کی بہت زیادہ دولت نہیں رہی لیکن اس کے سربراہ نے ماہی گیری کے لئے مشہور ایک سست رفتار گاؤں کو دنیا کا اہم پرکشش اور قابل رشک مرکز سرمایہ کاری وتجارت میں تبدیل کردیا۔ اور یہ صرف ایک شخص کی بصیرت اور دوراندیشی کا نتیجہ ہے ۔ شیخ محمد بن رشید المکتوم کی قیادت کو انقلابی قیادت تسلیم کرنے میں کسی کو ترود نہیں ہوسکتا۔ ان لیڈروں نے متبادل نظام تشکیل دیا اور اس پر محبت کی۔ یہی خلیج کی دیگر مملکتوں کو بھی کرنا ہوگا۔