کیا الولید بن طلال ٹرمپ کی مخالفت کا خمیازہ تو نہیں بھگت رہے ہیں؟

پرنس الولید بن طلال کو جیل میں بند کرنے کے بعد ولیعہد محمد بن سلمان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سعودی عربیہ سے بعدعنوانی کو ختم کرنے کے لئے اقدام انتہائی موثر ہے۔تاہم سعودی ولیعہد کے اس اقدام سے جو ناخوش ہیں ان کا ماننا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام بدعنوانی کے خلاف نہیں بلکہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مخالفت کا خمیازہ ہے۔

الولید بن طلال وہی سعودی شہزادے ہیں نے 2016ٹوئٹر کے ذریعہ موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔ او راس بدنام ٹوئٹر لڑائی کی سازش کا حصہ ہے۔امریکہ میں مسلمانوں کے داخلہ پر امتناع کے متعلق ٹرمپ کے اعلان پر الولید بن طلال نے ٹرمپ سے مخاطب ہوکر کہاتھا کہ وہ امریکہ کے صدراتی انتخابات سے ہٹ جائیں

طلال نے سال2015میں ٹوئٹر پر لکھاتھا کہ ’’ مسٹرٹرمپ جی او پی سے آپ اتفاق نہیں رکھتے مگر تمام امریکی بھی نہیں رکھتے۔ تم امریکہ کے صدارتی انتخابات سے دستبر دارہوجائیں جس کو آپ کبھی نہیں جیت سکتے‘‘

الولید بن طلال کی گرفتاری کے بعد ٹرمپ نے پرنس محمد سے بھی فون پر بات کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف بدعنوانی کو ختم کرنے والا اقدام نہیں ہے۔یہاں پر اس بات کا بھی تذکرہ ضروری ہے کہ ٹرمپ او رالولید دونوں کاروباری مخالفین بھی ہیں۔

جہاں پر ٹرمپ صنعت کار کی حیثیت سے مشہور ہیں وہ الولید سے حسد بھی کرتے ہیں کیونکہ الولید دنیاکے واحد صنعت کار ہیں جس کے دوذاتی جٹ اور ایک جمبو جٹ ہے۔

دوسری وجہہ ٹرمپ کے حسد کرنے یہ بھی ہوسکتی ہے الولید سب سے مہنگی اور متاثر کرنے والی یاٹ کے ملک بھی ہیں جوماضی میں ڈونالڈ ٹرمپ کی تھی۔ٹرمپ کی مخالفت کے علاوہ الولید سلمان کے بیٹے کی تاج پوشی سے خوش نہیں تھی جبکہ وہ ان کے بھتیجا ہیں۔

اس کے علاوہ الولید کے خلاف اب تک کوئی الزام عائد نہیں کیاگیا ہے اور نہ ہی سعودی حکومت نے کہاکہ کس قسم کی بدعنوانی میں الولید ملوث ہیں۔اتفاق کی بات ہے پہلے گرفتاری بعد میں الزامات کا تعین ہوگا۔