کیا آپ یہ سب جانتے تھے؟امبیڈکر کے ائین کو منوسمرتی سے بدلنے کا مطلب دلتوں سے سیدھی ٹکر لینا ہوگا اور دلت مسلمان نہیں ہیں۔حسن کمال

انگریز اس ملک پر راج کرنے والے پہلے غیرملکی حکمراں تھے ‘ جنھوں نے ان دیش واسیوں کو پہلی بار سرکاری فوج میں جگہ دی تھی ‘ جو آج کی زبان دلت کہلاتے ہیں۔ انگریزوں نے پہلی بار ایک مہار ریجمنٹ بنائی تھی۔ مہارشٹرا کے چمار مہار کہہ کر پکارے جاتے ہیں ۔ اس سے پہلے’شوروں ‘ کو فوج میں بھرتی کرنے کی بات سوچی بھی نہیں کی گئی تھی۔ان کاکام تو اونچی ذات والوں کی خدمت کرنا سمجھا جاتا تھا۔ انہیں اس کام کی اجازت دینا تو پاپ سمجھاجاتاتھا جو چھتریوں کے لئے مخصوص تھا۔ انہیں فوج مںیشامل کرنے کی جرات تو وہ مسلم بادشاہ بھی نہیں کرسکے تھے‘ جن کے مذہب نے انسانی مساوات کادرس پڑھایاتھا۔بہرحال انگریزوں کے دور حکومت میں پونہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں پیشواخاندان کا راج کرتے تھے۔ پیشوامراٹھا نہیں تھے۔ پیشوا برمن تھے۔

ان ہی میں سے ایک پیشوا باجی راؤ دوئم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکار کو سالانہ خراج دینے سے انکار کردیاتھا۔ انگریز حکمرانوں نے خفا ہوکر اس پیشوا کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ۔ سزا دینے کے لئے کمپنی بہادر نے جن سپاہیوں کا انتخاب کیا‘ ان اٹھ سوفوجیوں میں پانچ سو مہارتھے۔ان پانچ سو فوجیوں کی حیثیت ہر اول دستہ کی تھی۔ اس دستہ نے پیشوا کے کور ے گاؤں (جواب ایک تحصیل ہے) میں بھیما ندی کے کنارے واقع قلعہ کی طرف پیشقدمی شروع کی ۔ مہارسپاہیوں نے قلعہ پر حملہ کیا۔حملہ اتنا زوردار تھا کہ پیشوا باجی راؤ کو شکست کھاکر دوہزار کے لشکر لے کر فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ مہارسپاہیوں نے قلعہ پر یونین جیک لہرادیا۔ حکمراں انگریز تھے‘ لیکن مہارشٹرا کے مہار اس فتح کو برہمن وراجہ پر فتح سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیونکہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ دلتوں نے برہمنوں کو شکست دی تھی ‘ جو صدیوں سے انہیں ایک ذلیل زندگی گزارنے پر مجبور کرتے رہے تھے۔

یہ جنگ یکم جنوری 1818کو ہوئی تھی۔برسوں بعد کورے گاؤں مںیاس جنگ میں شہید ہونے والے مہاروں کی یاد میں اسٹیچو لگایاگیا۔مہارشٹرا کے دلت ہر سال یکم جنوری کو یہاں جمع ہوکر بھیما کی فتح کا جشن مناتے ہیں۔سچ بتائے کیا آپ آج سے پہلے یہ سب جانتے تھے؟ اس واقعہ اس جنگ اور اس مہاردستہ کا ذکر ہمارے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ کی کتابوں میں تو کہیں نہیں ملتا۔ بہت سے لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم تھا۔ جن چند لوگوں کو معلوم بھی تھا وہ بھی اسے کہانی ہی سمجھتے تھے۔ ہمیں مہارشٹرا کی ہندوتوا وادی تنظیموں کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کی وجہ سے ہم پرہندوستان کی تاریخ کا ایک سنہری باب روشن ہوا ۔ اب یہ جان لیجئے کہ ڈاکٹر بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر بھی مہار تھے۔

اس سال اس واقعہ کو دوسوسال پورے یونے پر اس سال جوش وخروش کچھ زیادہ دکھائی دیا۔ دوسرے گزشتہ چار برسوں سے ملک میں’ کاسٹ وار‘ جیسی فضاء بنائی جارہی ہے۔ دلتوں کے ساتھ بھید بھاؤ بڑی حدتک دب چکا تھا۔اب پھر سے ابھر رہا ہے ۔سہارنپور ‘ اونا ‘ روہت ویمولہ کی خودکشی نما قتل جیسے واقعات نے جہاں ایک طرف دلتوں میں بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے۔ وہیں دوسری طرف ان میں بیداری بھی بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔کورے گاؤں میں اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوکر دلت برداری اپنی بہادری کا مظاہرہ کررہی تھی۔ عام تاثر کے برعکس ریزرویشن سے دلتوں کو بہت لمباچوڑا فائدہ نہیں ہوا ہے ‘ آج بھی کسی شعبہ میں ان کی موجودگی 23فیصد نہیں ہے جو کوٹے کے مطابق ہونی چاہئے تھی۔ ایڈمنسٹریٹو عہدوں میں ان کا حصہ محض دیڑھ فیصد ہے۔لیکن دلتوں میں بڑ ی تیزی سے یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اپر کاسٹ سے یہ بھی برداشت نہیں ہورہا ہے ۔

ان کا خیال ہے کہ اپر کاسٹ کو یہ قطعی منظور نہیں کہ دلت ان کی طرح انگریزی بولیں ‘ فلیٹوں میں رہیں یا کاروں میں گھومیں۔ انہیں یہ بھی احساس ہورہا ہے کہ منوودایوں کو اقتدار حاصل کرنے کے لئے صرف ان کے ووٹ درکار ہیں۔ ان کا احساسات نے دلتوں میں بھی خوداری اور بیداری کی نئی روح پھونک دی ہے۔ پونہ کے قریب کورے گاؤں کے اس واقعہ کو ہی لے لیجئے۔ صاف لگتا ہے کہ اونچی کاسٹ والوں کو یہ ناگوار گزار رہا ہے کہ دلت اتنی بڑی تعداد میں اکٹھا ہوتے رہتے ہیں اور اپنے حقوق کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔اس لئے بار یکم جنری کے دن پونہ کی ہندوتوا وادی تنظیموں نے اس علاقے کے سارے ہوٹل او رکھانے پینے کی چھوٹی چھوٹی دوکانیں بند کرادی تھیں۔ تاکہ وہاں جمع ہونے والی بھیڑ کو جو مہارشٹرا کے کونے کونے سے ائی تھی‘ کھانے کا کھانا تودور پینے کو پانی بھی نہ مل سکے۔جب اس کے باوجود وہاں تین لاکھ دلت جمع ہوگئے تو یہ تنظیمیں اور جھنجھلاگئیں۔ انہوں نے اس مجمع پر پتھراؤ شروع کردیا۔

ظاہر ہے کہ وہاں بھگدڑ مچ گئی۔ میڈیا کی شرارت دیکھئے اس نے پہلے تاثر دا کے جھگڑا دلتوں او رمراٹھوں میں ہوا تھا۔وجہ یہ تھی کہ بھگدڑ میں جو ایک شخص ہلاک ہوا تھا و ہ مراٹھا تھا۔ لیکن بہت جلد ایک مراٹھا تنظیم نے بیان دے کر واضح کردیا کہ مراٹھوں کا اس واقعہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔مرنے والا پتھراؤ کرنے والوں میں شامل نہیں تھا۔ مراٹھا ‘ دلت جھگڑے کی بات اس لئے ناقابل قبول تھی کہ پیشوا مراٹھا نہیں تھے ‘ برہمن تھے او رجشن مہاروں کی پیشواؤں پر فتح منایاجارہا تھا۔ پھر مجبور ہو کر میڈیا کو کہنا پڑا کہ پتھراؤ ہندوتوا وادی تنظیموں نے کیاتھا۔سوال یہ ہے کہ ہندوتوا وادی یہ سب کیوں کررہے ہیں؟ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ اس طرح کی حرکتیں بی جے پی کو ووٹوں کے حصول کی سیاست پر منفی اثرڈال سکتی ہیں؟

ہمارا خیال ہے کہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ بس اب انہیں اس کی زیادہ پرواہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک زیادہ اہم یہ بتانا ہے کہ2014کے بعد ملک میں ہندو راج آگیا ہے ہ وہ مودی کے راج کوہندو راج ہی ماننے لگے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ وہ مودی سرکاری کو امبیڈکر کے ائین کی جگہ منوسمرتی کو نافذ کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ بی جے پی تمام سیاسی ضرورتوں او رمصلحتوں کے بدد صف انہیں روکو نہیں روکتی‘ کیونکہ بی جے پی کے لئے ووٹروں کو الیکشن بوتھ تک تو یہی تنظیمیں لاتی ہیں۔ہندوتوا وادیوں نے دیکھ لیا ہے کہ اگر وہ اپنی محنت‘ سے گجرات کے صرف چار شہروں سورت ‘ بڑودہ‘ احمد آباد اور راجکوٹ سے بی جے پی کو 43سیٹیں نہ دلاتے تو بی جے پی کی ہار یقینی تھی۔ باقی گجرات سے تو پارٹی کو صرف56سیٹوں ملی تھیں۔ہندوتوا وادیوں کو پورا یقین ہے کہ بی جے پی کو ان کی ضرورت ہے۔انہیں بی جے پی کی اتنی ضرورت نہیں ہے ۔

ہندوتوا وادیوں کے حساب کتاب میں بس اندازے کی غلطی ہے۔ امبیڈکر کے ائین کو منوسمرتی سے بدلنے کا مطلب دلتوں سے سیدھی ٹکر لین ہوگا او ردلت مسلمان نہیں ہیں۔ دلت تحریک کو جواب تحریک سے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاسی طور پر وہ لاکھ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں میں منقسم ہوں‘ لیکن جب بات سیاسی شعور کی آتی ہے تو وہ بالکل متحد ہوکرایک اسٹیج پر نظر آتے ہیں۔ ان کا سیاسی اور سماجی شعور مسلمانوں سے کہیں بہتر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دلتوں میں کوئی سیاسی اختلاف ہے ہیں نہی۔ علاوہ ازیں گذشتہ بدھ کو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر پوترے پرکاش امبیڈکر کی اپیل پر مہارشٹرا بند جس طرح کا عمل ہوا اسے دیکھکر سب دنگ رہ گئے۔دلتوں نے اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کردکھایاتھا۔ اب تک یہ سمجھاجاتاتھا کہ ممبئی صرف شیوسینا بند کراسکتی ہے ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہوکہ بات مہارشٹرا بند کی کامیابی پر ختم ہوجائے گی تو و ہ اپنی اصلاح کرلے۔ یہ بات تو اب شروع ہوئی ہے ۔

مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڈے نے یہ کہہ کر کہ بی جے پی تو ائین کو بدلنے کے لئے ہی ائی ہے اور یہ کہ پہلے ملک میں منوسمرتی نافذ ہے اب امبیڈکر اسمرتی کا نفاذ ہے‘ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے‘ اگر مودی سرکاری اور خود وزیر اعظم نے اسے نظر نادز کیاتو کچپ عجب نہیں کہ بات حد سے آگے بڑھ جائے ۔ دلتوں کی بیداری کے لئے بہت بڑا چیالنج ثابت ہوسکتی ہے۔