کہ پیشانی پہ چندن تو سبھی سادھو لگاتے ہیں

گوڈسے دیش بھکت تو گاندھی جی …؟
فیڈرل فرنٹ … کے سی آر یکا وتنہا

رشیدالدین
دیش بھکتی اور حب الوطنی کے سرٹیفکٹس پھر ایک مرتبہ ملک میں تقسیم ہونے لگے ہیں۔ تقسیم کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ دیش بھکتی کے وہ ٹھیکیدار ہیں جنہوں نے گزشتہ پانچ برسوں سے حب الوطنی کے اسنادات کی دکان کھول رکھی ہے۔ سرٹیفکٹ کی تقسیم پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، بشرطیکہ کسی مستحق کو سند دی جائے لیکن ان ٹھیکیداروں کے پاس حب الوطنی کے پیمانے مختلف ہیں۔ اب تو ایک ملزم نے ایک مجرم کو دیش بھکتی کا سرٹیفکٹ دے دیا ۔ سرٹیفکٹ دینے والی سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر ستمبر 208 مالیگاؤں بم دھماکوں میں ملزم ہے اور جسے سند دی گئی ، وہ بابائے قوم گاندھی جی کا قاتل ہے ۔ واہ رے دیش بھکت۔ اگر یہی سوچ رہی تو آگے چل کر ملک کی آزادی کیلئے جان و مال کی قربانی دینے والے تمام مجاہدین آزادی دیش دروہی اور ظالم انگریز دیش بھکت ہوجائیں گے۔ ویسے بھی انگریز سامراج کی نظر میں مجاہدین آزادی ، دہشت گرد تھے ۔ جن نظریات کی حامل طاقتیں آج بابائے قوم کے قاتل کو دیش بھکت قرار دے رہی ہے، وہ تحریک آزادی کے دوران انگریزوں کے جاسوس تھے۔ بھوپال لوک سبھا حلقہ سے بی جے پی امیدوار سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے دل کی بات آخر زبان پر آگئی ۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی میں کئی قائدین ایسے ہیں جن کے خیالات سادھوی کی طرح ہیں لیکن حالات کی نزاکت کو دیکھ کر لب کشائی سے گریز کرتے ہیں۔ گاندھی جی سے زیادہ ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کا احترام کرنے والے سنگھ پریوار میں کئی مل جائیں گے۔

سادھوی پرگیہ نے جو بیان دیا ، اس کی مخالفت بی جے پی فوری طور پر نہ کرتی اگر بیان دینے کی ٹائمنگ صحیح ہوتی۔ یہاں معاملہ الٹا ہوگیا۔ سادھوی نے جو بیان دیا ، اس کی ٹائمنگ غلط تھی ، لہذا بی جے پی کو دفاعی موقف میں آکر بادل ناخواستہ بیان کی مذمت کرنی پڑی۔ اگر لوک سبھا انتخابات کا آخری مرحلہ باقی نہ ہوتا تو شائد بی جے پی فوری مذمت اور لاتعلقی کے بجائے اسے سادھوی کی شخصی رائے کہہ کر دامن بچا لیتی۔ سادھی چونکہ پارٹی امیدوار ہیں لہذا انتخابی نقصان سے بچنے کے لئے انہیں بیان واپس لینے کے لئے مجبور کیا گیا ۔ سادھوی نے صرف یہ کہتے ہوئے بیان واپس لے لیا کہ پارٹی کا موقف ان کا بھی موقف ہے۔ انتخابی مہم کے دوران سادھوی نے کہا تھا کہ ممبئی اے ٹی ایس عہدیدار ہیمنت کرکرے کی موت ان کی بد دعا کا نتیجہ ہے ۔ ہیمنت کرکرے وہی عہدیدار تھے جنہوں نے مالیگاؤں بم دھماکہ میں سادھوی کے رول کو بے نقاب کیا تھا۔ ممبئی دہشت گرد حملہ میں ملک کے لئے ہیمنت کرکرے نے اپنی جان قربان کردی۔ ایسے عہدیدار کے بارے میں سادھوی کی بد زبانی پر بی جے پی خاموش رہی ۔ بی جے پی شائد اس خیال سے متفق تھی اسی لئے سادھوی کی زبان بندی نہیں کی گئی۔ بھوپال سے سادھوی کو لوک سبھا کا ٹکٹ دے کر بی جے پی نے ہندو توا نظریات کے استحکام کی کوشش کی ہے ۔ مذہبی منافرت کی بنیاد پر اکثریتی فرقہ کے ووٹ حاصل کرنے کا منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا ، یہ تو نتائج کے بعد ظاہر ہوگا لیکن نریندر مودی اور امیت شاہ نے سادھوی کی امیدواری کی تائید کرتے ہوئے عزائم کو آشکار کردیا۔ سادھوی کی وضاحت کے ذریعہ معاملہ کی سنگینی کو بی جے پی ختم کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی ترجمان جی وی ایل نرسمہا راؤ کا بیان Damage کنٹرول کے سواء کچھ نہیں لیکن امیت شاہ نے بابائے قوم کی توہین کے معاملہ میں پراسرار خاموشی اختیار کرلی ۔ اگر کانگریس کا کوئی لیڈر آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کے بانیوں میں کسی کو نشانہ بناتا تو کیا بی جے پی خاموش رہتی ؟ ہرگز نہیں بلکہ آسمان سر پر اٹھالیا جاتا ۔ راہول گاندھی نے گاندھی جی کی ہلاکت کیلئے جب آر ایس ایس کو ذمہ دار قرار دیا تو ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا لیکن ناتھورام گوڈسے کو دیش بھکت قرار دینے پر آر ایس ایس بھی خاموش ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ بھلے ہی گوڈسے کا براہ راست آر ایس ایس سے تعلق نہ رہا ہو لیکن اس کے نظریات اور ذہنیت آر ایس ایس کی تھی۔

بابائے قوم کے قاتل کو دیش بھکت قرار دینے والے کو انتخابی مقابلہ سے نااہل قرار دیتے ہوئے دوبارہ الیکشن کرانا چاہئے تھا ۔ ملک نے وہ منظر بھی دیکھا جب سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے نفرت کے سوداگروں نے ناتھورام گوڈسے کا مندر تعمیر کیا۔ ناتھورام گوڈسے جب دیش بھکت ہیں تو پھر اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے قاتلوں کو بھی دیش بھکتی کی سند دے دیں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ ہندوستان کس راہ پر گامزن ہے۔ نریندر مودی نے وزیراعظم بننے کے بعد گنگا کی صفائی کی مہم شروع کی اور اوما بھارتی کی نگرانی میں نئی وزارت قائم کی گئی۔ اب ضرورت گنگا کو گندگی سے پاک کرنے سے زیادہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے ذہنوں کی صفائی کی ضرورت ہے جو نفرت اور تعصب سے آلودہ ہوچکے ہیں۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کیلئے قوم پرستی اور حب الوطنی ایک ڈھونگ ہے۔ حقیقی معنوں میں وہی ملک کے دشمن ہیں۔ یہ احسان فراموشی نہیں تو اور کیا ہے کہ جس نے ملک کو آزاد کرایا ، اس کے قاتل کو دیش بھکت اور ہیرو قرار دیا جائے ۔
گزشتہ پانچ برسوں میں مسلمانوں کی حب الوطنی پر بھی کئی بار سوال اُٹھائے گئے۔ کسی نے پاکستان جانے کا مشورہ دیا تو کسی نے پاکستان بھیج دینے کی دھمکی دی۔ اسی نفرت کا نتیجہ تھا کہ ہجومی تشدد کے نام پر بے شمار بے گناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن نریندر مودی اور ان کی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ تعمیر وطن میں مسلمانوں کا لہو شامل ہے، اس سے کون انکار کرسکتا ہے ؟ لیکن ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والوں کو ایسے مسلمان چاہئے جو اپنے مذہب اور تہذیب کو چھوڑ کر ہندو تہذیب کو اختیار کرلیں۔ اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ نریندر مودی کی مخالفت کو ملک دشمنی قرار دیا جانے لگا۔ ملک میں مسلمانوںکے خون کی قیمت پانی سے بھی کم ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہجومی تشدد میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے ظالموں سے ایک مرکزی وزیر نے جیل پہنچ کر ملاقات کی تو دوسرے نے انہیں ضمانت پر رہائی کے بعد اپنے گھر بلاکر تہنیت پیش کی۔ یہ واقعات حکومت کی ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ خود کو قوم پرست قرار دینے والی تنظیم آر ایس ایس کا یہ حال ہے کہ اس کے ہیڈکوارٹر پر یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر قومی پرچم لہرایا نہیں جاتا ۔ ٹامل فلموں کے اسٹار کمل ہاسن جو اب سیاستداں بن چکے ہیں، انہوں نے آزاد ہندوستان کے ہندو دہشت گرد کی حیثیت سے ناتھورام گوڈسے کی نشاندہی کی تھی۔ گوڈسے کے حامیوں اور پرستاروں کو یہ بات بری معلوم ہوئی اور انہوں نے کمل ہاسن پر جوابی تنقیدوں کا آغاز کردیا ۔ نفرت کے سوداگروں کی عدم رواداری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ڈگ وجئے سنگھ نے جب ہندو دہشت گردی کا لفظ استعمال کیا تو نریندر مودی کو بھی برا لگا جبکہ ملک میں جہاں کہیں بم دھماکوں کے واقعات پیش آئے ، ملک کی سیکوریٹی ایجنسیوں نے اسے مسلم دہشت گردی قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ مالیگاؤں ، مکہ مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں میں ہندو تنظیموں کے ملوث ہونے کے انکشاف کے بعد جب ہندو دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کی گئی تو بی جے پی بھڑک اٹھی ۔ جب ہر ہندو دہشت گرد نہیں تو پھر اسلام کو دہشت گردی سے کس طرح جوڑ سکتے ہیں؟ دوسری طرف ملک میں مابعد انتخابی نتائج سیاسی سرگرمیوں عروج پر ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس کی جانب سے اپنے اپنے حلیفوں کو باندھ کر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ معلق پارلیمنٹ کے امکانات کو دیکھتے ہوئے دونوں پارٹیاں چوکس ہوگئیں اور وہ تشکیل حکومت کا کوئی بھی موقع گنوانے تیار نہیں ہیں۔ ان بڑی پارٹیوں کی سرگرمیوں کے درمیان چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ فیڈرل فرنٹ کا پرچم لے کر مختلف ریاستوں کے دورہ پر نکل پڑے۔ انہوں نے کئی علاقائی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کی لیکن کسی بھی گوشے سے تائید حاصل نہیں ہوئی ۔ اس طرح کے سی آر کا فیڈرل فرنٹ قیام سے قبل ہی دم توڑ چکا ہے ۔ ڈی ایم کے قائد اسٹالن اور کیرالا کے چیف منسٹر وجئین سے ملاقات کے بعد کے سی آر نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دونوں قائدین نے مابعد نتائج علاقائی جماعتوں کے اہم رول کی تائید کی ہے لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ کے سی آر فیڈرل فرنٹ کی آڑ میں مندروں کے درشن کیلئے گئے تھے۔ اسٹالن نے صاف کردیا کہ کے سی آر سے ان کی ملاقات خیرسگالی تھی کیونکہ وہ مندر کے درشن کیلئے آئے تھے ۔ یو پی اے کی صدرنشین سونیا گاندھی نے 23 مئی کو انتخابی نتائج کے دن غیر بی جے پی جماعتوں کا اجلاس طلب کیا ہے ۔ انہوں نے یو پی اے کی تمام حلیف جماعتوں کے علاوہ غیر این ڈی اے جماعتوں کے قائدین کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ۔ کے سی آر اور جگن موہن ریڈی دیوار کی بلی کی طرح ہیں جو انتخابی نتائج کے بعد اپنا موقف ظاہر کریں گے ۔ سونیا گاندھی کے طلب کردہ اجلاس میں کے سی آر اور جگن کی شرکت غیر یقینی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ وہ نتائج سے قبل کانگریس کی طرف جھکاؤ ظاہر کرتے ہوئے مودی سے دشمنی مون لینا نہیں چاہتے۔ ہاں اگر نتائج یو پی اے کے حق میں رہیں تو یہ بن بلائے مہمان کی طرح دوڑے چلے آئیں گے ۔ سادھوی پرگیہ سنگھ پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
دلوں کا حال آسانی سے کب معلوم ہوتا ہے
کہ پیشانی پہ چندن تو سبھی سادھو لگاتے ہیں