کہانی کا دوسرا پہلو یہ ہے

اس مضمون میں میں کشمیر میں تشدد کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔اس کے ذریعہ میں ملک کے ان نو جوانوں کو سچ بتا نا چاہتا ہوں جو کشمیر کی کہا نی کا صرف ایک حصہ جانتے ہیں۔گزشتہ دنوں کشمیر کے تین شہریوں کو قتل کر نے کے الزام میں فو جیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا ہے۔اس کے جوا ب میں فو جیوں کے بچوں نے کارروائی کی۔ایک رپو رٹ کے مطابق ایسے وقت میں جب جموں و کشمیر میں فو جیوں کیخلاف ایف آئی آر درج کر نے اور پتھر بازوں کے خلاف کیس ختم کر نے کا موضوع قومی مباحثوں کا حصہ بن چکا ہے۔آرمی افسروں کے بچے قومی حقوق انسانی کمیشن سے مدد کے طلب گار ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کمیشن پتھر بازوں کے تشدد سے فوجیوں کی حفاظت کرے۔

پریتی، کاجل ، اور پربھو ، دو لیفٹیننت کرنل اور ایک ریٹائر ڈ نائب صوبہ دار کے بچے این ایچ آر کے چیف جسٹس ایچ ایل درو کے پاس یہ شکایت لیکر گئے۔جس میں حقوق انسانی کے اعلی عہدیدار وس اور ایمنسٹی انٹر نیشنل کو انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے شاباشی دی گئی۔اور یہ کہا گیا کہ وہ فوجیوں کے حقوق کے لئے کام نہیں کر ہے ہیں۔جن کی زندگی ہمہ وقت خطرہ میں ہوتی ہے۔ اور پتھر باز انہیں کبھی بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔یہ ایک ایسی جنگ ہے جو ہندوستان کی آزادی کے بعد سے جاری ہے۔اس کے پیش نظر جموں و کشمیر کی حکومت اور مر کزی حکومت نے یہاں افسپا نافذ کر دیا ہے۔

ہم سب اس کہا نی کے بارے میں جانتے ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے نوجوان بطور خاص اس کہانی کا دوسرا حصہ پڑھیں۔جنوری میں پارلیمنٹ میں وزارت دفاع سے سوالات کئے گئے ۔’’ کیا وزیر دفاع یہ بتا سکتے ہیں کہ ۱۔ افسپا ۱۹۹۰ ء کے تحت مسلح افواج کے کسی فرد کیخلاف کارروائی کے لئے جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے مر کزی حکومت کو موصول ہو نے والے مقدمات کی تعداد کتنی ہے؟ ۲۔ کیا ان مقدمات کی تعداد بتا ئی جاسکتی ہے کہ جو ابھی زیر التوا ء ہے ۔منظور کر لئے گئے ہیں یا مسترد کر لئے گئے ہیں؟ ۳ ۔ ہر درخواست کی تفصیلات ، بشمول فائلنگ کی تاریخ ، مبینہ جرمانہ،تحقیقات کے نتائج اور ان کے خلاف کارروائی کہاں تک پہنچی؟ ۴ ۔ عملے کے اس فرد کے خلاف کارروائی نہ کرنے یا مقدمہ خارج کر نے کی وجہ؟ اس سوالات کے جوابات وزارت دفاع نے اس طرح دےئے۔۱۔ افسپا کی تعداد پچاس ہے۔جو مر کزی حکومت کو جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے موصول ہوئے ہیں۔۲؍۳ ۔۔ ایک ایسا دستاویز فراہم کیا گیا ہے جو ہر سال موصول ہو نے والے مجموعی مقدمات فراہم کرتا ہے۔

جس میں مبینہ جرمانہ خارج اور منظور ہو نے والے مقدمات کی تعداد بھی درج ہے۔۴۔۔ عملے کے کسی فرد کے خلاف کارروائی نہ کر نے یامقدمہ خارج کر نے کی وجوہات نا کافی ثبوت ہیں۔فوجیوں کیخلاف درج مقدمات کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔ ۲۰۰۱ ء میں قتل کے الزام میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی۔یہ عرضی مسترد کر دی گئی۔۲۰۰۵ میں قتل کے کیالزام میں دو ایف آئی آر درج کئے گئے ہیں انہیں خارج کر دیا گیا۔۲۰۰۶ ء میں سترہ ایف آئی آر درج کر وائی گئیں۔جن مے ں ایک عصمت دری، ایک جنسی ہراسانی ، ۶ اغوا اور قتل اور بقیہ قتل کی تھیں۔۲۰۰۷ میں تیرہ ایف آئی آر درج کر وائی گئیں۔جن مے ں ایک عصمت دری اور ایک تشدد اور قتل اور بقیہ قتل کی تھیں۔۲۰۰۸ میں عصمت دری ، چوری اور قتل کی تین ایف آئی آر درج کر وائی گئیں۔۲۰۰۹ میں عصمت دری اور اغوا کی دو ایف آئی آر درج ہوئیں، انہیں بھی خارج کر دیا گیا۔۲۰۱۰ میں قتل کے چار ایف آئی آر درج کر وائی گئیں ۔تمام مقدمات کو خارج کر دیا گیا۔

۲۰۱۱ میں قتل کی ایک اغوا کی ایک ایف آئی آر درج کر وائی گئیں۔۲۰۱۳ میں قتل کی تین ایف آئی آر درج کرائی گئیں۔۲۰۱۴ میں قتل کی دو ایف آئی آر درج گئی ۔۲۰۱۶ میں قتل کی ایک ایف آئی آر درج ہوئی جسے خارج کر دیا گیا۔جموں کشمیر میں کسی جرم کے لئے عدالت میں حاضر ہو نے وا لے فوجیوں کی تعدادصفر ہے۔فوجیوں کے بچوں کو اس بات پر غصہ ہے کہ کشمیر میں ان کے اپنوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر بائی جا رہی ہے۔

ہندوستانی فوج ، ہندوستانی فوجیوں کی جانب سے ، ہندوستانی پولیس اسٹیشن میں ہندوستانی اہلکاروں کے ذریعہ درج کرائے جانے والے مقدمات سے خوف زدہ ہیں۔ہندوستانی فوج ہندوستانی عدالت میں ہندوستانی جج کے سامنے مقدمے کی سماعت سے خائف ہیں۔ہندوستانی فوج کا جرم چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو انہیں ڈر نے کی ضرورت نہیں ہے۔کیوں کہ ان کی پشت پناہی حکومت کر تی ہے۔جوان عصمت دری ،قتل ، اغوا، اور تشدد کر سکتے ہیں اور یہ چیزیں کر کے بھی وہ ہندوستانی حکومت کے زیر سایہ آسانی سے کسی بھی سزا سے بچ سکتے ہیں۔ہندوستانی نو جوان اور ہم سب کو سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ ہزاروں کشمیری پتھر بازی کیوں کر رہے ہیں۔