کھنڈوالی نے جنید کی یاد میں ہاتھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر عید کی نمازادا کی

کھنڈوالی:ماتھرا کی ٹرین میں بیہمانہ طریقے سے قتل کئے گئے نوجوان کی یاد میں گاؤں والوں نے آج ہاتھوں پر سیاہ پٹیاں باندھی‘ متوفی کے بڑے بھائی ہاشم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں وہ اس سال اپنے بھائی کے بغیر ہی عید منارہے ہیں۔ملک کی درالحکومت کے مضافات میں واقعہ دیہات کھنڈوالی کے لوگ غم وغصہ میں ہیں جبکہ گھر والے اور دیگر مقامی لوگ 17سال کے جوان’’ بیٹے‘‘جنید کی موت پر صدمے میں ہیں۔

ہاتھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر صبح عید کی نماز کے لئے آنے والے مسلمانوں نے کہاکہ ان کے لئے عید کا مطلب اب ختم ہوگیاہے اور حیران ہے کہ ’’ بری طرح پیٹ کر قتل کرنے کے واقعہ‘‘ ان کے ذہنوں سے نہیں جارہا ہے۔

جنید کے والد 55سال کے جلال الدین نے رپورٹرس سے کہاکہ ان کے لئے دوبارہ ایسے عید نہیں ہو۔صبح نماز ادا کی گئی ‘ یہاں پر عید کا کوئی جشن نہیں منایاگیا۔ گاؤں کے لوگ جلال الدین کے گھر پر جمع ہوئے اور انہیں ان کی غم کی گھڑی میں دلاسہ دیا۔اطلاع ہے کہ دیگر علاقوں بشمو ل میوات میں بھی لوگ عید کی نماز کے موقع پر سیاہ پٹیاں ہاتھوں میں باندھے ہوئے ‘ تاکہ اس بے رحمانہ قتل کے خلاف احتجاج درج کرایاجائے۔

جنید کے رشتہ کے بھائی سانور خان نے کہاکہ ہم نے ہمارا احتجاج سوشیل میڈیا پر بھی پوسٹ کیا ہے۔ہاشم(20)کو جمعرات کی رات جب وہ عید کی خریداری کے بعد دہلی کے صدر بازار سے ٹرین میں سوار ہوتا تھا متعدد مرتبہ حملہ کرکے زخمی کردیاگیا۔واقعے کو دوہراتے ہوئے اپنی مغموم آواز میں اس نے کہاکہ’’ اچانک 20-25لوگوں کا ایک گروپ اوکھلا اسٹیشن سے ٹرین میں سوار ہوا اور میرا بھائی کو ڈھکیلا جس کی وجہہ سے وہ گرگیا۔

انہو ں نے میرے بھائی کا قتل کردیا‘‘۔ انہوں نے کہاکہ ’’ جب میں اور میرے بھائی جنید نے ان سے پوچھا کہ ہمیں کیوں ڈھکیل رہے ہو تو انہو ں نے ہمارے سر کی ٹوپی کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے ہمیں مسلمان ‘ ملک کے غدار ‘ پاکستانی کہا اور کہاکہ ہم بیف کھاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد انہوں نے ہماری ٹوپی نکال کر نیچے پھینک دی اورمیرے داڑھی بھی کھینچنے کی کوشش کی‘‘۔جلال الدین جو ہاشم کو دلاسہ دینے کی کوشش کررہے تھے ‘ پولیس کی جانب سے واقعہ کو سیٹ کا جھگڑا قراردینے کی کوشش کو یکسر مسترد کردیا۔انہوں نے کہاکہ ’’ حقیقت تو یہ ہے کہ جنید نے ایک معمر شخص کے لئے جگہ چھوڑ دی تھی‘ واقعہ کو ٹالنے کے لئے سیٹ کو موضوع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

واقعہ سراسر مذہبی نوعیت کا ہے اور میرے بچے کو اس کی مذہبی شناخت کی وجہہ سے نشانہ بنایاگیا ہے‘‘۔ ان سے ’سیاہ عید ‘ کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے ہاکہ ’’ ہم نے نماز ضرو ر ادا کی ہے مگر عید نہیں منائی‘ ہم چاہتے ہیں ہمارے بچے کے گنہگاروں کو سزاملے‘‘۔ جب پوچھاگیا کہ ہریانہ حکومت کی جانب سے ان کے گھر والوں سے ملاقات کے لئے کوئی اب تک آیا ہے یانہیں تو جلال الدین نے جواب دیا کہ’’ نچلی سطح کا کوئی عہدیدار بھی اب تک ہم سے ملاقات کے لئے نہیں آیا‘ تو چیف منسٹر کے متعلق ہم کیاکہیں گے۔ ہم نے واقعہ کی مذمت کے متعلق حکومت کی جانب سے کسی کا بھی بیان اب تک نہیں سنا‘‘۔

گاؤں والے بھی مغموم گھر والوں کے ساتھ احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں۔دہلی کے قریب بلب گڑھ کے کھنڈوالی کے ساکن شکیل نے رپورٹرس سے کہاکہ’’ہم جنید کے قتل کی وجہہ تلاش کرنے کے لئے عید نہیں منارہے ہیں۔ لہذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ احتجاج کے طور پر ہم اپنے ہاتھوں پر سیاہ پٹیاں باندھیں گے‘‘۔ ایک 20سال کی عمر کے گاؤں والے نوجوان نے کہاکہ’’ یہ سب کب رکے گا؟اس قسم کے ہر واقعہ کے بعد حکومت کچھ معاوضہ کی پیش کش کرتے ہے اور لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے ‘ کیایہ رکے گا؟‘‘۔

اس نے ملزمین ے خلاف انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے متعلق بھی سوال اٹھایا اور تعجب کیا چار دن میں صرف ایک ملزم کی ہی گرفتار ی عمل میں ائی ہے۔ واقعہ میں ملوث ملزمین کی نشاندہی کرنے والوں کو ایک لاکھ روپئے دینے کا بھی پولیس نے ایک روز قبل اعلان کیا۔ضلع ریڈ کراس کی جانب سے متاثرہ خاندان کو ایک روز قبل پانچ لاکھ روپئے کا چیک دیا گیا وہیں وقف بورڈ چیرمن نے بھی پانچ لاکھ روپئے معاوضہ اور جلال الدین کے بیٹے جو ملازمت فراہم کرنے اعلان کیا ہے۔

جمعرات کی رات کودہلی مسافرین ٹرین میں بلب گڑہ او رماتھرا ریلوے اسٹیشن کے دوران میں ہجوم نے جنید کو چاقو سے حملہ کرکے ہلاک کردیاتھا جبکہ اس واقعہ میں متوفی کے بھائی ہاشم او ر شاکر بھی شدید زخمی ہوگئے تھے۔