کشمیر میں عارضی صلح کے بعد نوجوانوں کی عسکریت پسندی میں شمولیت میں کمی ائی ہے۔ 

نئی دہلی۔پیر کے روز سکیورٹی تنصیبا ت کے ذرائع نے ٹی او ائی کو بتایا کہ مئی سے قبل 17کے مقابلے رمضان میں عارضی صلح کے اعلان ے بعد تیرہ کشمیری نوجوانوں نے عسکریت پسند گروپوں میں شمولیت اختیار کی ہے‘ جبکہ یہ اعداد وشمار گیارہ تک اس وقت پہنچ گئے جب دو نوجوان اپنے گھر واپس لوٹ گئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں او رکشمیر میں اپریشن پر امتناع کے دوران جو تیرہ نوجوان عسکریت پسند ی کا رویہ اختیار کئے ہیں وہ حزب المجاہدین میں شامل ہوئے ہیں۔جبکہ چار نے البدر میں شامل ہوئے جس کے متعلق جمو ں او رکشمیر میں واپسی کا اشارہ دیا ہے ‘ اس کے علاوہ ماباقی جیش محمد یا پھر لشکر طیبہ میں شامل ہوئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رمضان کے دوران پرتشدد واقعات کا سلسلہ کم سطح پر جاری ہے‘ اور کارڈن اینڈ سرج اپریشن کو کم کرنے کے بعد شہریوں او رسکیورٹی فورسس کی اموات میں بھی کمی ائی ہے اسی طرح پتھربازوں میں ملوث لوگوں بھی کم ہی مارے گئے ہیں۔

مئی 17کے بعد سے صرف تین سکیورٹی جوان مارے گئے ہیں اور زخمیوں کی تعداد میں کمی کو عارضی صلح کی کامیابی کے اشارے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

اس رمضان میں گرینائیڈ حملوں کے ایک قابل ذکر رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک ذرائع نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ زیادہ تر گرنیائیڈ یاتو مقامی یا پھر غیر تربیت یافتہ نوجوان پھینکتے نظر ائے ہیں جن کا مقصد عارضی صلح کو سبوتاج کرنا ہے۔

سنٹرل سکیورٹی تنصیبات کے ایک منتظم نے کہاکہ ’’ ہم اب بھی پتہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کونسی دہشت گردوں اور ایجنسیوں کے لوگ مذکورہ گرینائیڈ حملوں کو انجام دینے کاکام کررہے ہیں۔

تاہم دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع نہیں مل رہا ہے لہذا وہ اس قسم کے حملوں کو سہارا لے رہے ہیں‘‘۔وہیں رمضان کے آغاز کے بعد پتھر بازی کے واقعات کی خبر ملی ہے ۔

رمضان کے موقع پر دوسرے او رتیسرے جمعہ کے دوران ہی پتھر بازی کے دو بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔قابل غور یہ بھی ہے ان دونوں واقعات میں باہر کے لوگ ملوث ہیں جو جمعہ کی نماز کے دوران جامعہ مسجد میں جمع ہوئے تھے ‘ ان واقعات میں کوئی بھی مقامی شامل نہیں ہے۔

ایک افیسر نے کہاکہ ’’ یہ بیرونی لوگ انتہائی انتہا پسند ذاکر موسی سے وابستہ ہیں۔ مئی 25کے روز ان کی جانب سے جب رکاوٹیں کھڑی کی گئی تب حریت لیڈر میر وعظ عمر فاروق نے مشورہ دیتھا کہ جمعہ کی اہم نماز کے وقت بیرونی لوگوں کو الگ کیاجائے ۔

مقامی لوگوں کو یکم جون کے روز مسجد میں موقع دیاگیا ہے اور مذکورہ ’بیرونی ‘لوگوں کو نواہتا منتقل کردیا گیا ‘جہاں پر ان لوگوں نے موقع پر کھڑی سی آر پی ایف کی گاڑی کو نشانہ بنایاتھا۔ آخری جمعہ نہایت پرامن گذار ا‘‘۔

عارضی صلح کے دوران دل کو چھولینے والی تبدیلی یہ ائی ہے کہ مقامی نوجوانوں کی عسکرت پسند تنظیموں میں شمولیت میں کمی ائی ہے ۔ تیرہ میں سے دونوجوانوں ان کے گھر والوں ‘جموں او رکشمیر پولیس او ردیگر اداروں کی مدد سے عسکری سرگرمیوں کو چھوڑ کر قومی دہارے میں واپس لوٹ گئے ہیں۔

ایک افیسر نے اشارہ دیا کہ ’’اپریشن پر روک کے دوران اسکول اور کالجس پرسکون انداز میں چل رہے ہیں۔

عوامی نمائندے دہشت گردوں کی دھمکی او رخطرے کے بغیر اپنے اپنے حلقوں میں آرام کے ساتھ گھوم رہے ہیں‘‘۔ مذکورہ افیسر نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ’’ حالیہ تشدد کے واقعات کے لئے‘کسی بھی متاثرہ علاقے میں ایک وقت کے اندر ہی امن قائم کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔

کچھ پرتشدد واقعات رونما ہوتے ہیں جن کو برادشت کرنا پڑیگا۔ یقیناً2000کی جنگ بندی کے دوران تشدد کی سطح میں اضافہ ہوا تھا‘‘۔

اگلے کچھ دنوں میں مرکز اور جموں او رکشمیر کی حکومت اپریشن پر امتناع میں توسیع کے متعلق اگلے کچھ دنوں جائزہ لے گی اور رمضان کے بعد بھی روک میں توسیع کے متعلق غور کیاجائے گا۔

درائع کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان کی مدد سے دہشت گرد کوئی بڑی کاروائی نہیں کرتے جب تک وادی میں چل رہے اپریشن پر روک لگایاجاسکتا ہے۔