کشمیری طلبہ کو نشانہ بنائے جانے پر خاموش کیوں ہیں مرکز او راپوزیشن ۔ عمرعبداللہ کا سوال

سری نگر۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمرعبداللہ نے جمعرات کے روز استفسار کیا کہ وزیراعظم نریندر مودی ملک کے مختلف حصوں میں کشمیری طلبہ کو نشانہ بنائے جانے پر خاموش کیوں ہیں۔

جموں کشمیرکے سابق چیف منسٹر نے میڈیاسے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پلواماں جیسے حملوں کے پس منظر میں پاکستان کے ساتھ بات چیت نہیں ہوسکتی۔پلواماں حملے کے ایک ہفتہ بعد عبداللہ نے کہاکہ ہمارے وزیراعظم نے منھ توڑ جواب دینے کی بات کہی تھی لیکن موجودہ حالات میں ایسا جواب ممکن نظر نہیںآرہا ہے۔ پلواماں میں14فبروری کو ایک دہشت گرد حملے میں سی آر پی ایف کے چالیس جوان شہیدہوگئے تھے ۔

جیش محمد نے حملے کی ذمہ داری لی ہے۔عبداللہ نے کہاکہ کشمیر کے گورنر ستیا پال ملک سے ان کشمیری طلبہ کے تحفظ کو یقینی بنانے کی درخواست کی جو پلواماں دہشت گرد حملے کے بعد مبینہ دھمکیوں اور مار پیٹ کے چلتے ملک کے مختلف حصوں سے لوٹنے کو مجبور ہوئے ہیں۔

کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں کی سکیورٹی واپس لئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ ددوبارہ سکیورٹی فراہم کئے جانے والے قدم ہے اوروہ کسی کی جانب سے سکیورٹی کا غلط استعمال کرنے کی بات سے واقف نہیں ہیں۔انہوں نے کہاکہ جب ہم ( کشمیر مسلئے کے حل کے لئے)تبادلہ خیال کی بات کرتے ہیں تو ہمیں قومی قراردیاجاتا ہے۔

عمر عبداللہ نے اپنی آج کی پریس کانفرنس میں آرڈی ایکس سے لے کر راستہ جس پر سے فوجی دستوں کا گذ ر ہورہا تھا اور ملک بھر میں کشمیری طلبہ کے ساتھ ہورہی زیادیتوں پر بات کی ۔

انہوں نے کہاکہ کشمیری طلبہ کے ساتھ مارپیٹ کے معاملے میں وزیراعظم نریندر مودی اور ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ دونوں ہی خامو ش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور گورنر میگھا لیہ کھلے عام کشمیر طلبہ کے بائیکاٹ کا اعلان کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ’’ ملک کی عوام بی جے پی کا متبادل چاہتی ہے بی جے پی کی بی ٹیم نہیں۔ مجھے امید تھی کہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں کشمیر ی طلبہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ایک ٹھوس موقف اختیارکریں گے‘‘۔

انہو ں نے کہاکہ مگر اپوزیشن کا رویہ اس معاملے میں بی جے پی کی بی ٹیم کی طرح نظر آرہا ہے۔