کسی بھی قدیم روایت کو مذہبی قرارنہیں دیاجاسکتا۔

نئی دہلی۔ سپریم کورٹ نے پیر کے روز کہاکہ داودی بوہیرہ مسلم سماج میں نابالغ لڑکیوں کے ( ایف جی ایم )کے متعلق بحث پر کہاکہ دسویں صدی سے چل رہا یہ عمل ’’واجبی‘‘ نہیں ہے‘اور عدالت اس میں کسی قسم کی گنجائش نہیں دیکھ سکتی ہے۔

ایک مسلم گروپ کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ اے ایم سانگھوی کی دائر درخواست کا جواب دیتی ہوئے چیف جسٹس دیپک مشرا کی زیرقیادت بنچ نے کہاتھا کہ یہ ایک قدیم عمل ہے جس کو ’’ضروری مذہبی عمل‘‘ بنایاگیاتھا اور یہی وجہہ تھی کہ یہ عدالت کی جانچ پڑتال میں نہیں آیا۔سانگھوی نے جسٹس اے ایم کھانوالکر اور ڈی وائی چندرچوڑ پر مشتمل بنچ سے کہاکہ یہ عمل دستور کے ارٹیکل 25اور26کے تحت مذہبی آزادی کا حصہ ہے۔

تاہم بنچ نے اس کے برخلاف کیا کہ’’ یہ سچ ہے کہ دسویں صدی سے یہ عمل کیاجارہا ہے مگر ہمارے لئے اس کو ضروری مذہبی عمل قراردینا لازمی نہیں ہے‘‘۔

بنچ نے کہاکہ اس عمل کو ائینی اخلاقیات کے امتحان سے گذرنا ہوگا۔سانگھوی نے کہاکہ داؤدی بوہیرہ ترقی پسند سونچ کے حامل اور مسلمانوں میں کافی پڑھا لکھا طبقہ ہے اور یہ طریقہ کار ایسا نہیں ہے جس کی مخالفت کی جارہی ہے۔

بوہیرہ سماج کی خواتین کافی پڑھی لکھی ہوتے ہیں اور معزز عدالت کی جانب عائد تین طلاق کے عمل کو بھی نہیں مانتی ہیں۔

اس کیس پر اگلی سنوائی 27اگست کو مقرر کی گئی ہے۔قبل ازیں بوہیرہ سماجی کی نابالغ لڑکیوں کا( ایف جی ایم )کرنے والے ڈاکٹرس ’’سائنسی جواز‘‘ کے متعلق سوال کرتے ہوئے انہیں اس کام کو روکنے کے متعلق کسی قسم کی عدالت ہدایت جاری نہیں کرسکتی ہے۔

مرکز کی جانب سے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال عدالت میں پیش ہوئے اور کہاکہ کئی ممالک جیسے امریکہ ‘ یوکے ‘ آسٹریلیا اور27افریقی ممالک میں اس عمل پر امتناع عائد کردیاگیا ہے