کسان مر رہے ہیں

محمد ریاض احمد
حالیہ دنوں میں کئی ایک خبریں ٹی وی چیانلوں، سوشل میڈیا، ویب میڈیا اور پرنٹ میڈیا (اخبارات و جرائد) پر چھائی رہیں۔ ان میں ہندوستان بھر میں پانی کی شدید قلت، مہاراشٹرا کے بشمول ملک کے دیگر علاقوں میں لوگوں کا پانی کی بوند بوند کے لئے ترسنا، ٹیکس چوروں سے متعلق پناما پیپرلیکس کے انکشافات، آسام اور مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات کے بارے میں خبریں شامل تھیں تاہم ایک خبر کو میڈیا میں سب سے زیادہ اہمیت دی گئی اور وہ خبر ہندوستان کے دولت مند ترین شخص و ریلائنس انڈسٹریز کے مالک مکیش امبانی کے چھوٹے بیٹے اننت امبانی کے جسمانی وزن میں کمی کی ہے۔ سارے ہندوستانی میڈیا نے جو شائد ذہنی غلامی میں ہنوز مبتلا ہے اننت امبانی کے وزن گھٹانے کو اس انداز میں پیش کیا جیسے وہ ہندوستان اور ہندوستانی عوام کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری ہو۔ اننت امبانی کے بارے میں میڈیا میں دعوے کئے جارہے ہیں کہ ارب پتی باپ کے اس ارب پتی بیٹے نے 500 دنوں یعنی 18 ماہ میں 108 کیلو وزن گھٹانے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ میڈیا کے بعض گوشوں نے 18 ماہ میں 108 کیلو وزن گھٹانے کو ایک عالمی ریکارڈ سے تعبیر کرتے ہوئے مکیش امبانی اور ان کی سوشل بیوی نیتا امبانی کی چاپلوسی میں تمام سرحدیں پھلانگ دیں۔ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سچن ٹنڈولکر، فلم اسٹار سلمان خان، جان ابراہام، ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے موجودہ کپتان ایم ایس دھونی نے اننت امبانی کی اتنی تعریف و ستائش کردی جس کا وہ لڑکا حقدار ہی نہیں تھا۔ اننت امبانی کی تعریفوں کے پل باندھنے والوں کی قطار میںہمارے وزیراعظم مسٹر نریندر مودی بھی شامل ہوگئے۔ اننت امبانی نے اپنے بھائی آکاش امبانی، بہن ایشا اور ریلائنس کے بعض رفقاء کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں سے واقف کروایا۔ ایشا، نے جو yale یونیورسٹی کی گریجویٹ ہیں اور مزید تعلیم کے لئے اسٹانفورڈ اور ہارورڈ جیسی دنیا کی باوقار یونیورسٹیز نے ان کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں جبکہ آکاش ایک اسٹیئرنگ جیو ہے۔ اننت نے جب سے اپنے جسم کا بوجھ یعنی وزن کم کیا ہے تب سے میڈیا نے اسے ایک اسٹار بنادیا ہے۔ اسے ایک ایسا نوجوان قرار دیا جارہا ہے جس نے 500 دنوں تک سخت پرہیز اور ایکسرسائز کرتے ہوئے موٹاپے کا شکار دوسرے مرد و خواتین کے لئے ایک اچھی مثال پیش کی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی سے اننت امبانی کی ملاقات پر سوشل میڈیا پر طنز و طعنوں پر مبنی کافی تبصرہ کئے جارہے ہیں۔ واٹس اپ پر مودی اور اننت امبانی کی ایک تصویر گشت کررہی ہے جس کے نیچے میں کچھ اس طرح کی تحریر درج ہے ’’نریندر مودی نے اپنے مصروف ترین اوقات میں سے کچھ وقت ایک دور دراز کے دیہات (ممبئی) کے رہنے والے ایک غریب کسان (اننت امبانی) سے ملاقات کے لئے نکالا۔ مہاراشٹرا کے غریب کسان مکیش امبانی کے اس بیٹے نے بی جے پی زیراقتدار ریاست مہاراشٹرا میں سخت محنت کرکے 108 کیلوگرام جسمانی وزن کم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ وزیراعظم نے امبانی کے بیٹے سے ملاقات کے لئے وقت تو نکالا لیکن انہوں نے ابھی تک حقیقی کسانوں سے ملاقات کے لئے وقت نہیں نکالا۔‘‘ سوشل میڈیا پر اس طرح کی پوسٹ سے ہمیں بھی یہ ترغیب ملی کہ کیوں نہ عام ہندوستانیوں کو حکومت کی کسان دشمنی سے واقف کرایا جائے۔ چنانچہ ہم نے جب ملک میں کسانوں کی حالت زار کا جائزہ لیا تو رونگٹھے کھڑے کردینے والے انکشافات ہوئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ صرف دو سال کے دوران ملک میں ہزاروں کسانوں نے مالی پریشانیوں، قرضوں کے بوجھ، سود خوروں کے مظالم اور مرکزی و ریاستی حکومتوں کی بے حسی سے دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی۔ کسانوں کی خودکشیوں کے معاملہ میں ریاست مہاراشٹرا سر فہرست رہی جہاں جنوری تا اکٹوبر 2015 ء 2590 کسانوں نے خودکشی کرلی جبکہ جاریہ سال میں یکم مارچ تک اس ریاست میں 57 کسانوں نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا۔ خود حکومت نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ جاریہ سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران ملک میں 116 کسانوں نے خودکشی کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سال 2014 میں 2115 ، سال 2015 میں 2997 کسانوں نے مالی پریشانیوں سے تنگ آکر خودکشی کی۔ مہاراشٹرا میں جہاں بی جے پی کی زیر قیادت حکومت ہے، 2014 ء میں 1207 سال 2015 ء میں 1841 کسانوں نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا۔ اسی طرح نئی ریاست تلنگانہ میں 2014 ء کے دوران 503 ، 2015 ء میں 342 کسانوں کو خودکشی پر مجبور ہونا پڑا۔

کرناٹک میں 2014ء اور 2015 ء میں بالترتیب 156 اور 107 کسانوں کی جانیں گئیں۔ مدھیہ پردیش میں بھی سال 2014 ء کے دوران 120 کسانوں نے سودخوروں اور قرض داروں سے تنگ آکر خودکشیاں کیں۔ آندھراپردیش میں سال 2014ء کے دوران تقریباً 75 پنجاب میں 2015 ء کے دوران 495، اڈیشہ میں پچھلے سال 139 کسانوں نے خودکشی کی۔ یہ ایسے اعداد و شمار ہیں جو کسی بھی حکومت کا سر شرم سے جھکانے کے لئے کافی ہیں لیکن نریندر مودی غریب کسانوں پر توجہ دینے کی بجائے بیرونی ملکوں کے سفر کو ترجیح دے رہے ہیں۔ انہیں ہر دن ایک نئی اسکیم شروع کرنے کا شوق ہوگیا ہے اور اپنی عادت سے مجبور ہوکر وہ وقفہ وقفہ سے ایک نئی اسکیم متعارف کروارہے ہیں۔ انہیں نئی اسکیمات متعارف کروانے کی بجائے پہلے ہی سے موجود اسکیمات پر عمل آوری کو یقینی بنانا چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نریندر مودی خود کو دولت مند صنعتکاروں کے غول سے باہر نکالیںاور یہ دیکھیں کہ مہاراشٹرا وملک کی دیگر ریاستوں میں لوگ آخر پانی کی بوند بوند کو کیوں ترس رہے ہیں۔ انہیں اور ناگپور کے آر ایس ایس ہیڈکوارٹر میںبیٹھے ان کے آقاؤں کو یہ جان لیناچاہئے کہ ملک کے عام آدمی کو حب الوطنی کے کھوکھلے نعروں ، مذہب و ذات پات کی بنیاد پر اختلافات کی نہیں بلکہ دو وقت کی روٹی اور پینے کیلئے صاف ستھرے پانی کی ضرورت ہے۔ انہیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ آخر ہندوستان میں پانی مہنگا اور خون سستا کیوں ہورہا ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com