کرناٹک میں مودی کا جادو نہیں چلا، کانگریس سے عوامی ناراضگی

بی جے پی کو 2008 ء میں 110 اور تازہ انتخابات میں 104 نشستیں،وزیراعظم کی مہم کے باوجود کم نشستیں
حیدرآباد ۔ 17 ۔ مئی (سیاست نیوز) کرناٹک کے انتخابی نتائج کے بعد بی جے پی ملک میں نریندر مودی لہر کا دعویٰ کر رہی ہے ۔ شمال مشرقی ریاستوں کی حالیہ کامیابیوں کے بعد کرناٹک میں بی جے پی واحد بڑی پارٹی کے طور پر ابھری ہے، جسے بی جے پی قیادت نریندر مودی کا جادو قرار دے رہی ہے۔ کیا واقعی نریندر مودی میں ایسا جادو ہے کہ وہ پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں ؟ اعداد و شمار کے اعتبار سے دیکھیں تو کرناٹک میں نریندر مودی کا کوئی جادو نہیں چلا بلکہ عوام کانگریس کی سدا رامیا حکومت سے ناراض تھے جس کے سبب بی جے پی کو واحد بڑی پارٹی کا موقف حاصل ہوا۔ عوام نے کسی بھی پارٹی کے حق میں اقتدار کا فیصلہ نہیں کیا اور معلق اسمبلی تشکیل پائی۔ اگر مودی کا جادو ہوتا تو بی جے پی کو اسمبلی میں کم سے کم سادہ اکثریت حاصل ہوتی۔ کرناٹک میں گزشتہ تین انتخابات کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ 2008 ء میں جب قومی سطح پر نریندر مودی کا کوئی وجود نہیں تھا، بی جے پی کو کرناٹک میں 110 نشستیں حاصل ہوئی تھی اور یدی یورپا نے چیف منسٹر کے عہدہ کا جائزہ لیا تھا ۔ مودی کے بغیر بی جے پی کو 2008 ء میں 110 نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ 2018 ء یعنی تازہ الیکشن میں بی جے پی کو 104 نشستیں حاصل ہوئیں جو 2008 ء کے مقابلہ 6 نشستیں کم ہیں۔ مودی کی 11 دن تک مسلسل مہم اور 25 سے زائد ریالیوں سے خطاب کے باوجود کرناٹک میں ان کا جادو نہیں چلا ۔ 2008 ء میں مودی نے کرناٹک کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا تھا ، اگر وہ گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے کرناٹک کی مہم میں حصہ لیتے تو ضرور 110 نشستوں کا سہرا بھی ان کے سر باندھ لیا جاتا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کو منصوبہ بند انداز میں ایک جادوئی شخصیت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور پارٹی میں موجود دیگر قائدین کو ان کی صلاحیت اور مقبولیت کے باوجود گوشۂ گمنامی میں ڈھکیل دیا گیا۔ پارٹی اور حکومت پر مودی اور ان کے حامیوں کا زبردست کنٹرول ہے اور کوئی بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ کرناٹک میں 104 نشستوں کا حصول نریندر مودی کے علاوہ امیت شاہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ نتائج کے بعد نریندر مودی جب نئی دہلی میں پارٹی کے دفتر پہنچے تو کارکنوں نے بڑا پھول کا ہار تیار رکھا تھا تاکہ بیک وقت مودی اور امیت شاہ کو پہنایا جائے۔ جیسے ہی مودی پارٹی آفس پہنچے ، ان کی باڈی لینگویج دیکھ کر خود امیت شاہ بھی گھبرا سے گئے اور انہوں نے کارکنوںکے ہار میں مودی کے ساتھ خود کو شامل کرنے کے بجائے صرف مودی کو ہی ہار پہنادیا ۔ نریندر مودی نے بھی امیت شاہ سے خواہش نہیں کی کہ وہ ان کے ساتھ پھولوں کے ہار میں شامل ہوجائیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پارٹی صدر ہونے کے با وجود امیت شاہ کو کسی بھی معاملہ میں کریڈٹ نہیں آئے گا ۔ سیاسی مبصرین نے کہا کہ مودی کسی بھی انتخابی مہم میں اپنی تقاریر اور جملہ بازی کے ذریعہ جوش و خروش پیدا کرسکتے ہیں لیکن مسائل پر وہ اظہار خیال نہیں کرسکتے۔ کرناٹک میں بھی انہوں نے مقامی مسائل کے بجائے کانگریس اور اس کی قیادت کو نشانہ بنانے پر توجہ دی۔ کرناٹک میں بی جے پی کو 104 نشستوں کا حصول دراصل کانگریس کی غلط حکمرانی اور حالیہ عرصہ میں طبقات میں پھوٹ سے متعلق فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ 2008 ء میں بی جے پی کو 33.86 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ کانگریس کو 80 نشستوں کے ساتھ 35.13 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ تازہ انتخابات میں مودی اور امیت شاہ کے باوجود بی جے پی 104 نشستوں کے ساتھ 36.2 فیصد ووٹ حاصل کرسکے جبکہ کانگریس کو 78 نشستوں کے باوجود 38 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ۔ دونوں انتخابات میں کانگریس کو بی جے پی سے ووٹ حاصل ہوئے لیکن اقتدار نہیں ملا۔ کرناٹک میں اگر مودی کا جادو چلتا تو پارٹی کو اکثریت ضرور حاصل ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی اور امیت شاہ نے چیف منسٹر کی حیثیت سے یدی یورپا کی حلف برداری تقریب میں شرکت نہیں کی۔ مودی کی مقبولیت اور ان کے جادو کا پول اس وقت بھی کھل گیا جب تریپورہ ، میگھالیہ اور گوا میں بی جے پی کا مظاہرہ مایوس کن رہا ۔ گوا میں حکومت کے باوجود بی جے پی سے زیادہ کانگریس کو نشستیں حاصل ہوئیں لیکن سیاسی توڑ جوڑ کے ذریعہ بی جے پی نے دوبارہ حکومت تشکیل دی۔ 2004 ء میں بی جے پی کو 79 ء کانگریس کو 65 اور جنتا دل سیکولر کو 58 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ معلق اسمبلی کے سبب کانگریس اور جنتا دل سیکولر نے مخلوط حکومت تشکیل دی تھی ۔ 2013 ء میں 122 نشستوں کے ساتھ کانگریس اقتدار میں آئی اور بی جے پی کو 40 نشستیں حاصل ہوئی تھی۔