کانگریس کے لئے ارنب بنے خارش تو آر ایس ایس نے دعوت نامہ قبول کرنے کاکیا دعوی

نئی دہلی۔ پیر کے روز راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ نے بڑے فخر کے ساتھ اس بات کا دعوی پیش کیا کہ سابق صدر جمہوریہ ہند پرنب مکرجی نے بطور مہمان خصوصی ان کی تربیت یافتہ کارکنوں سے خطاب کے لئے رضامندی کا ظاہر کی ہے‘ جس پر کانگریس خاموش ہے۔

دہلی میں آر ایس ایس کے پرچار پرمک راجیو تولی نے کہاکہ’’ ہم نے سابق صد ر جمہوریہ کو مدعو کیا ہے اور ہمیں خوشی ہے نے ہماری تقریب میں شرکت اور کیڈر سے خطاب کے لئے رضا مندی ظاہر کی ہے‘‘۔ مکرجی کے دفتر نے مذکورہ پروگرام کے متعلق تصدیق یا تردیدسے انکار کردیا ہے۔

آر ایس ایس کے مطابق سابق صدر تقریبا 600تربیت یافتہ او رپرچارکوں سے7جون کو ناگپور میں خطاب کریں گے جنھوں نے تین سال کے تربیتی کورس کی تکمیل کی ہے۔آر ایس ایس اس سال سالانہ تقریب میں اپنے تربیت یافتہ کیڈر سے خطاب کے لئے ممتاز شخصیتوں کو مدعو کرتی آر ہی ہے۔

اگرچکہ کے صدور عام طور پر ریٹائرمنٹ کے ذریعہ پارٹی سیاست سے غیر جانبدار ہوجاتے ہیں‘ مکرجی کا طویل عرصہ تک کانگریس سے وابستہ رہنا اس سے علیحدگی کے لئے مشکل ہے۔کم سے کم ایک کانگریس لیڈر نے مکرجی سے یہ امید رکھے کہ اگر انہوں نے دعوت نامہ قبول ہی کرلیا ہے ‘ تو وہ پلیٹ فارم کو سکیولرزم کے ایک غیرمعمولی پیغام کے لئے استعمال کریں گے۔

یہ معاملے کانگریس کو چھونے والا ثابت ہوگا‘ کیونکہ مکرجی کے پارٹی پس منظراور راہول گاندھی کے سلسلہ وار آر ایس ایس پر حملوں کے پیش نظر بی جے پی کو کانگریس پر تنقید کا موقع مل جائے گا۔ کچھ کانگریس لیڈر نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ جانکاری جھوٹی ثابت ہوجائے گی باوجود اسکے ان کی ذاتی طور پر کی گئی جانکاری کی رائے ہے کہ سابق صدر آر ایس اسی کی میٹنگ میں شرکت پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

ایک ذرائع نے کہاہے کہ’’ہماری جانکاری ہے کہ یہ دعوت نامہ اس وقت بھیجا گیاتھا جب و ہ صدر تھے مگر مستر د ہوگیا‘ اس وقت کہاگیا تھا کہ وہ دستور ی عہدے پر فائز ہیں اس لئے اس طرح کی تقریب میں شریک نہیں ہوسکتے۔

جب دوبارہ دعوت نامہ ان کے پا س بھیجاگیا تو ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا‘‘۔ اندرونی طور پر آر ایس ایس اس کو ایک بڑا قدام دیکھ رہی ہے جس کے ذریعہ یہ پیغا م دیاجاسکے کے تنظیم کو کانگریس کا کوئی بھی شخص قابل قبول ہے سوائی نہرو گاندھی خاندان کے۔

مذکورہ قائدین نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مکرجی نے اپنی معیاد کے دوران ایک سے زائد مواقع پر آرایس ایس سربراہ موہن بھگوت کو راشٹرپتی بھون مدعوکیاہے۔

آر ایس ایس نظریہ ساز راکیش سنہا نے کہاکہ’’ ناگپور میں آر ایس ایس کی تقریب میں شرکت کی دعوت کو سابق صدر جمہوریہ ہندکی جانب سے قبول کرنا ملک کے اہم مسائل پر ایک پیغام ہے‘ مخالفین دشمن نہیں ہوتے اس پر بات ہونی چاہئے۔

آر ایس ایس ۔ ہندوتوا پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دعوت نامہ قبول کرنا ہے‘‘۔ کانگریس کے کئی سینئر لیڈرس اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کررہے ہیں مگر انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ مکرجی کی جانب سے باضابطہ تصدیق کے بعد ہی وہ اس پر کچھ کہیں گے۔ایک سینئر لیڈر نے کہاکہ ’’ ہمیں اس پر شبہ ہے مگر مکرجی کے آفس کی جانب سے اس کی تصدیق تو ہوجانے دیجئے۔ہم اس جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتے‘‘۔مگر ایک دوسرے کانگریس لیڈر نے کہاکہ ’’مکرجی ایسے لیڈر نہیں ہے جو اس پروگرام کے سیاسی اثرات کا نہیں سمجھ سکے۔

ان کی سکیولر پہچان بھی کسی تنازع کا شکار نہیں ہے۔اگر وہ اب بھی ایسا کررہے ہیں تو ہم کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ خود مختار ہیں۔وہ اب کانگریسی نہیں ہیں۔اپنی معیاد کی تکمیل کے بعد انہوں نے کہاکہ تھا کہ وہ اب فعال سیاست کا حصہ نہیں ہیں۔اگر وہ آر ایس ایس کیڈر کو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ ہندوستان میں سکیولرازم مذکرات کے باہر نہیں ہے تو‘ تو کیوں کسی کو مسئلہ ہوگا؟‘‘۔مکرجی نے خود کو کانگریس میں سیاست میں شامل نہیں کیاہے۔

انہوں نے برسی کے موقع پر نہرو کی سمادھی پر جاکر خراج عقیدت پیش کیا اور نہرو کی زندگی پر لکھی ایک کتاب کی رسم اجرائی بھی انجام دی۔ مکرجی نے اتوار کے روز ٹوئٹ کرکے کہاکہ’’ ہندوستان کی عظیم شخصیت کی برسی کے موقع پراپنے دل کی گہرائیوں سے پنڈت نہرو کا خراج عقیدت پیش کرتاہوں۔

ملک کی شاندار شخصیت جنھوں نے ملک کوچمکانے کے لئے اپنی سونچ اور زندگی صرف کردی۔چلو ہم ساتھ ملکر ملک کو اونچائیوں پر لے جانے کے لئے ان کے بتائے ہوئے راستوں کا تعین کرتے ہیں‘‘۔

کانگریس لیڈر س نے مکرجی سے اختلافات کو واضح طور پر انکار کیا ہے مگر کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ جس طرح راہول گاندھی پارٹی کو چلارہے ہیں اس پر تاثر کے طور پر مکرجی کا یہ اقدام ہوسکتا ہے۔لیکن ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ آر ایس ایس کے ساتھ دیکھے جانے کی یہ وجہہ بھی نہیں ہوسکتی۔