کاس گنج فسادات میں ہندو بھائیوں نے مسلم بھائیو ں کی جلتی دکانوں کو بجھایا

کاس گنج کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے لوٹے سماجی کارکنوں ‘ صحافیوں اور سابق پولیس افسران نے حقائق سے آگاہی کمیٹی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ مقامی لوگوں نے فرقہ پرستوں کی سازش کو ناکام بنادیا ‘ حکومت اور انتظامیہ پر یکطرفہ کاروائی کا الزام‘ چندن کا قتل کس نے کیا پولیس کو بھی نہیں معلوم
نئی دہلی۔ اترپردیش کے کاس گنج میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے لوٹے وفد نے اپنی حقائق سے آگاہی رپورٹ مں کئی انکشاف کیے جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ جب مٹھی بھر فرقہ پرست مسلمانوں کی دکانوں اور مکانوں میں آگ لگارہے تھے تو وہیں موجود ہندو بھائی ہی اس آگ کو بجھانے کا بھی کام کررہے تھے جبکہ پولیس غیر حاضر تھی اور حاضری تو وہ فرقہ پرستوں کے ساتھ تھی۔

سابق ائی جی پولیس یوپی ایس آر دارا پوری ‘معرفی صحافی امت سین گپتا‘ معر وف ایڈوکیٹ محمد اسد حیات‘راکھی سہگل ‘جے ایب یو طلبہ یونین کے سابق صدر موہت کمار پانڈے‘ صحافی علیم اللہ خان‘حسن البنا‘ قاضی توصیف حسین ‘ خالد سیفی‘ شارق حسین ‘ ندیم خان وغیرہ پر مشتمل وفد نے کاس گنج کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد پیر کو یہاں پریس کلب آف انڈیا میں اپنی ریورٹ جاری کی او رکچھ بنیادی سوال بھی اٹھائے۔

امیت سین گپتا نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ 26جنوری کے واقعات کے بعد کاس گنج میں مسلمانوں کی 27دوکانوں کو نذر آتش کیاگیا اور دومسجدوں میں آگ لگائی‘ قرآ ناور دیگر مذہبی کتابوں کو نذر آتش کیاگیا‘ ان دوکانوں کو لوٹا گیا کہ جو گذشتہ 100سال سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور تقسیم وطن اور بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ کے وقت بھی وہاں امن رہا ۔ انہوں نے کہاکہ ایک بھی ہندو کی دکاون نہیں جلی جس سے صاف ہے کہ منظم طریقہ سے مسلمانوں کی دکاونوں کو لوٹاگیا۔

انپوں نے کہاکہ اتنا سب ہونے کے باوجود مسلمانوں کی ایف ائی آر تک درج نہیں کرائی گئی جبکہ متاثرین کے خلاف نہ جانے کن کن دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 127لوگوں کی گرفتاری عمل میں ائی ہے جس میں سے 86مسلمان ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سب سے پہلے حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ چندن کا قتل کس نے کیا؟۔انہوں نے کہاکہ چندن گپتا بھی تاجر تھا اور چندن گپتا کے قتل کے الزام میں جس سلیم کو گرفتار کیاگیا ہے وہ بھی تاجر ہے اور دوکامیاب تاجر ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟۔

انہوں نے کہاکہ پولیس کے مطابق سلیم نے اپنی چھت سے چندن کو گولی ماری ہے جبکہ گولی چندن کے بازو میں لگی ہے اور اس کے زخم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ گولی قریب سے ماری گئی ے اس لئے شک ہے کہ گولی چھی سے چلی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بغیر کسی گواہ کے سلیم کو گرفتار کیاگیا اور 27لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیاگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ویڈیوز ائے ہیں کہ سنکلپ فاونڈیشن اور اے بی وی پی کے لوگ بائیک سے ائے تھے 70بائیک چھوڑ کر بھاگے تھے جس میں سے پولیس کا کہنا ہے کہ 35کے قریب ضبط کی گئی ہیں چنانچہ جب ہم لوگوں نے پولیس اور انتظامیہ سے پوچھا کہ کیا ان بائیک سواروں سے بات کی تو جواب ملا یہ سوا ل اوپر سے کیجئے۔

امیت سین گپتا نے کہاکہ اب تک ایک بھی بائیکر سے پولیس نے پوچھ گچھ تک نہیں کی گئی ۔ صحافی راکھی نے کہاکہ ہم نے پولیس اور انتظامیہ سے دریافت کیا کہ اب تک کوئی سی سی ڈی وی کیمرے کی فوٹیج ائی‘ کیابائیکرس سے پوچھ گچھ کی گئی؟کیا ہندو دوکانداروں سے پوچھ گھ ہوئی جواب نہیں میں ملا۔انہوں نے کہاکہ ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کے گھر کھلے ہوئے ہیں اور ان میں کوئی تالا لگانے والا نہیں تھا چنانچہ ہم نے تالا لگایا۔انہوں نے کہاکہ ہم نے سوال کیا کہ مسلمانوں کو تو پستول او رکارتوس کے ساتھ گرفتار کیاگیا لیکن کیا کسی ہندو کو بھی گرفتار کیاجبکہ ان کے تو ثبوت موجود ہیں کہ وہ پستول لے کر ریالی نکال رہے تھے۔

انہوں نے کہاکہ مسلمانو کی دکاونوں کو لوٹا گیا‘ جلایاگیا‘ مسجد جلائی گئی لیکن پولیس یہاں آج تک نہیں پہنچی نہ ہی کوئی لیڈر پہنچا تاہم گرفتاری مسلمانوں کی ہی ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ یہاں بھائی چارے کا قتل کیاجارہا تھا لیکن وہ نہیں ہوسکا کیونکہ لوگ اب متحد ہیں۔ معروف صحافی آر ملیش نے کہاکہ پہلے فسادات کے بعد سیاسی لوگ سچ بیان کرتے تھے لیکن آج ایک بھی پارٹی کاس گنج کے سچ پر بولنے کے لئے تیار نہیں ہے جو افسوسناک ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بڑی سازش کے تحت مسلمانوں کو ظالم اور ہندؤوں کو مظلوم بناکر پیش کیاجارہا ہے جو بہت ہی خطرناک ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ننگی یکطرفہ کاروائی ہو رہی ہے جو جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ چندن کا قاتل کون ہے؟ کچھ نہیں پتہ لیکن گرفتاریاں ہورہی ہیں‘ مقامی بی جے پی کا رکن پارلیمنٹ بھیڑ کو مشتعل کررہا ہے لیکن اس کے خلاف کچھ نہیں ہورہا ہے ؟۔ انہوں نے کہاکہ چند ایک کو چھوڑ کر میڈیا نے جو جانبداری کی ہے وہ بھی افسوسناک ہے ۔ اس موقع پر پرندیم خان ‘ عارفہ خانم اور سلیم انجینئر نے بھی اظہار خیال کیا اور کچھ اہم او ربنیادی سوال اٹھائے