ڈی سرینواس اور محمد علی شبیر کی سیاسی اہمیت برقرار

دونوں قائدین کو کلیدی عہدوں پر نامزد کئے جانے کا امکان
نظام آباد۔ 21 مئی ۔ ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) سابق صدر پردیش کانگریس و ایم ایل سی مسٹر ڈی سرینواس اور سابق ریاستی وزیر محمد علی شبیر کو کانگریس ہائی کمان کی جانب سے اہم عہدوں پر نامزد کرنے کے امکانات ہیں۔ گذشتہ چند دنوں سے یہ دونوں قائدین دہلی میں سرگرم نظر آرہے ہیں اور سابق صدر پردیش کانگریس مسٹر سرینواس کو تیسری مرتبہ صدر پردیش کانگریس نامزد کئے جانے کی افواہ بھی گرم ہے لیکن ڈی سرینواس کو ریاست کے بجائے مرکز میں ان کی خدمات حاصل کرنے کیلئے بھی غور کئے جانے کی اطلاعات ہیں۔ مسٹر ڈی سرینواس نے صدر پردیش کانگریس کی حیثیت سے 2004 ء اور 2009 ء میں کانگریس پارٹی کو ریاست میں اقتدار پر لاتے ہوئے اپنا ایک مقام بنالیا تھا اور ہمیشہ کانگریس ہائی کمان اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے ڈی سرینواس کو اہمیت دیتے ہوئے انہیں ایم ایل سی نامزد کیا ہے ۔ طویل عرصہ سے سیاست سے وابستہ ڈی سرینواس تجربہ کار سیاستداں ہے اور یہ یو پی اے چیر پرسن سونیاگاندھی کے علاوہ سونیاگاندھی کے اڈوائزر احمد پٹیل کے علاوہ جئے پال ریڈی مرکزی وزیرسے ان کے بہتر تعلقات ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ ڈی سرینواس کو دہلی طلب کرتے ہوئے ریاست کے حالات پر ان کی رائے حاصل کی جارہی ہے ۔ مسٹر ڈی سرینواس کو کل ہند کانگریس کا سکریٹری یا پھر کوئی اہم عہدہ دئیے جانے کے امکانات نظر آرہے ہیں ۔ مسٹر ڈی سرینواس کے مرکزی قائدین سے بہتر تعلقات ہے جس کی وجہ سے انہیں نظام آباد پارلیمنٹ کی نشست پر مقابلہ کرنے کیلئے بھی دبائو ڈالا گیا تھا لیکن لمحہ آخر میں انہیں اسمبلی کیلئے مقابلہ کرنا پڑا تھا ۔ مسٹر ڈی سرینواس 2009اور 2010ء کے انتخابات میں ناکامی کے باوجود بھی ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو محسوس کرتے ہوئے مرکزی کانگریس نے انہیں ایم ایل سی نامزد کرتے ہوئے ان کی خدمات حاصل کررہی ہے اور یہ ہمیشہ ان دنوں دہلی میں مصروف نظر آرہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی خدمات مرکزی سطح پر حاصل کرنے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح سابق ریاستی وزیر محمد علی شبیر کو بھی چیف منسٹر مسٹر این کرن کمارریڈی کابینہ میں شامل کرنے کیلئے سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔ دو ریاستی وزراء کے استعفیٰ کے بعد کابینہ کی توسیع کے امکانات قوی ہوگئے ہیں اور چیف منسٹر اس سلسلہ میں ہائی کمان سے نمائندگی بھی کرتے ہوئے کابینہ کی توسیع کی اجازت دینے کی خواہش کی تھی ۔ مسٹر محمد علی شبیر نے انتخابات میں ناکامی کے باوجود بھی مرکزی سطح پر اپنا ایک مقام بنالیاہے جس کی وجہ سے مسٹر شبیر علی کو اعلیٰ سطح کی کوآرڈنیشن کمیٹی کا رکن نامزد کیا تھااور عنقریب میں ریاست میں حالات تبدیل ہونے کے امکانات ہے۔
اردو میڈیم مدارس بند ہونے کے خدشات
نارائن پیٹ میں کئی مقامات پر اساتذہ کی جائیدادیں مخلوعہ
نارائن پیٹ ۔ 21 مئی ۔ ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) قانون حق تعلیم کے بنیادی حق بن جانے کے بعد بھی سرکاری اردو میڈیم مدارس بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ریاستی حکومت کی جانب سے جی او ایم ایس نمبر 43 کے ذریعہ ضلع محبوب نگر کو 601 سکنڈری گریڈ اساتذہ کی جائیدادیں منظور ہوئی ہیں جس کے منجملہ اردو میڈیم مدارس کی 35 ایس جی ٹی جائیدادیں بھی شامل ہیں۔ مگر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ نارائن پیٹ کے کئی اردو پرائمری اسکولوں کو اساتذہ کی جائیدادوں کی منظوری سے محروم رکھا گیا ہے ۔ کئی اردو مدارس ایسے ہیں جہاں پر 8سال سے صرف ودیا والینٹروں کے ذریعہ اسکول چلایا جارہاہے ۔ 8سالوں کے دوران ایک بھی اساتذہ کی جائیدیں منظور نہیں کی گئی ۔محکمۂ تعلیمات کے عہدیداروں کی غیرذمہ دارانہ حرکات سے اردو مدارس کو بند کئے جانے کے اندیشہ پیدا ہوگئے ہیں۔ نارائن پیٹ ڈیویژن کے منڈل دامرگدہ مستقر اور موضع کیاتن پلی میں تعلیمی سال 2004 ء میں اردو پرائمری اسکول قائم کیا گیاتھا ۔ 8 سال کا عرصہ گذرنے کے بعد بھی ایک بھی ریگولر اساتذہ کی منظوری عمل میں نہیں آئی ہے ۔ جاجاپور (نارائن پیٹ منڈل ) اپر پرائمری اسکول میں صرف دو ریگولر اساتذہ ، چناپورلہ پرائمری اسکول میں صرف 2 ریگولر اساتذہ امین پور ( اوٹکور منڈل) میں صرف ایک ٹیچر کی جائیداد منظورہ ہیں۔ نئی منظورہ شدہ 35 جائیدادوں کے بعد نارائن پیٹ ڈیویژن میں تعلیمی سال 2010-11 کے دوران راجیو ودیا مشن محبوب نگر کی جانب سے شروع کئے گئے اور پرائمری اسکول کوٹہ کنڈہ ( نارائن پیٹ منڈل ) ، نیڑچنتا ( مدور منڈل ) دامر گدہ ، کیاتن پلی (امرگدہ منڈل) ، امین پور ( اوٹکور ) منڈل کے مدارس کو امید تھی کہ اساتذہ کی جائیدادوں کی منظوری عمل میں آئے گی ۔ مگر ان اردو اسکولوں کی تقدیر میں محرومی ہی آئی ہے ۔ محبان اردو کا کہنا ہے کہ قانون حق تعلیم کے بنیادی حق بن جانے کے بعد بھی اردو میڈیم مدارس کو تنگ نظری کے چشمہ سے دیکھنے والے عہدیداران کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے ۔