ڈاکٹر زینت ساجدہ انشائیوں کے آئینہ میں

مسرور فاطمہ خان
دنیا بھر میں تاریخی اور معیاری جامعات کی جب بھی بات ہوتی ہے تو جنوبی ہندوستان کی تاریخی اور قدیم ’’جامعہ عثمانیہ‘‘ کے تذکرہ کے بغیر یہ باب ادھورا رہتا ہے۔ہندوستان کی آزادی اور سقوط حیدرآباد نے ریاست تلنگانہ کی قدیم اور تاریخی جامعہ عثمانیہ اور خصوصاً اس جامعہ میں اردو ذریعہ تعلیم پر ایسے انقلابی تبدیلیوں کے نقوش چھوڑے ہیں جو یقیناً اردو داں طبقہ کے لئے ایک تکلیف دہ حقیقت ہیں۔ریاست حیدرآباد کے ہندوستان کا حصہ بن جانے کے تین دہوں کے دوران ہی جامعہ عثمانیہ سے اردو ذریعہ تعلیم بالکل ہی ختم ہوگیا چونکہ 1948 میں حالات یکسر بدل چکے تھے اور ان حالات میں جامعہ عثمانیہ میں اردو ذریعہ تعلیم کے سلسلے کو برقرار رکھنا ممکن نہ تھا چنانچہ جامعہ میں انگریزی کے ذریعہ پہلے پیشہ وارانہ کورسیز کی تعلیم دی جانے لگی اور پھر 1951-52 کے تعلیمی سال سے سائنس اور فنون لطیفہ میں بھی انگریزی زبان ذریعہ تعلیم بنادی گئی اور یوں ہندوستان کی آزادی کے تقریباً 34 برس بعد جامعہ عثمانیہ میں اردو میں ذریعہ تعلیم کا ایک سنہرے اور ناقابل فراموش دور کا خاتمہ ہوگیا۔جامعہ عثمانیہ سے ذریعہ تعلیم اردو ختم ہونے کے بعد ہماری مادری زبان ایک شعبہ تک محدود ہو کر رہ گئی اور آج بھی اس تاریخی جامعہ (آرٹس کالج) میں اردو چند کمروں میں اپنی بقاء کی جنگ لڑرہی ہے۔جامعہ عثمانیہ میں شعبہ اردو پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ شواہد ملتے ہیں کہ پروفیسر وحیدالدین سلیمؔ غیر منقسم ہندوستان کے اور جامعہ عثمانیہ میں اردو کے پہلے پروفیسر تھے‘وہ 1918 تا 1928 تک تقریباً 11سال جامعہ عثمانیہ میں پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو رہے۔پروفیسر وحیدالدین سلیمؔ سے لیکر موجودہ صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر معید جاویدؔ تک شعبۂ اردوکو کئی قابل ‘ باصلاحیت اور اردو ادب کے روشن ستاروں کی خدمات دستیاب ہوئی ہیں۔جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ 1968 ء میں شعبہ کی پہلی خاتون صدر پروفیسر رفیعہ سلطانہ سے لیکر 2014 ء میں پروفیسر عطیہ سلطانہ تک 7 خاتون صدور کی خدمات دستیاب رہیں۔ شعبۂ اردو کی تمام خاتون صدور نے اس اہم اور انتہائی مصروف ترین عہدہ پر فائز رہنے کے باوجود اردو ادب میں اپنے قیمتی اور بیش بہا قلم سے اضافہ کرتی رہیں۔ پہلی صدر پروفیسر رفیعہ سلطانہ سے لیکر موجودہ دور کی آخری خاتون صدر پروفیسر عطیہ سلطانہ کی کئی تصانیف جن میں ادب کے تقریباً تمام اصناف کا احاطہ کیا گیا ہے‘ وہ آج اردو ادب کا قیمتی اثاثہ ہیں۔

ڈاکٹر زینت ساجدہ بھی ان ہی7 ستاروں میں سے ایک ہیں جو نہ صرف جامعہ عثمانیہ کی پروفیسر یا شعبۂ اردو کی صدر نہیں بلکہ اردو دنیا میں وہ ایک ایسا نام ہیں جو اردو ادب کے ساتھ لازم ملزوم بن چکا ہے ۔ڈاکٹر زینت ساجدہ جنہیں اردو دنیا میں ’’زینت آپا‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے وہ مئی 1924 ء میں رائچور میں پیدا ہوئیں۔ان کا اصل نام ام خواجہ زینت النساء ساجدہ بانوتھا لیکن’’زینت ساجدہ ‘‘کے ادبی نام سے جانی جاتی ہیں۔انکی ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم المعلمین کاچیگوڑہ میں ہوئی۔ وویمنس کالج عثمانیہ یونیورسٹی سے انٹر اور بی اے کیا۔ایم اے اردو میں امتیازی کامیابی حاصل کی اور ڈاکٹر سجاد کی نگرانی میں ’’اردو غزل‘‘ پر ایک مقالہ لکھا جس کی علمی حلقوں میں بڑی شہرت رہی۔پی ایچ ڈی میں شاہ اشرف بیابانی کی مثنوی ’’نوسر ہار‘‘پر مسبوط اور مدلل مقالہ لکھا اور اس مثنوی کی تدوین کی جس پر انہیں 1973 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا گیا۔یہ مقالہ اگرچہ پروفیسر مسعود حسین خان کی نگرانی میں شروع کیا گیا لیکن ان کے علیگڑھ چلے جانے پر ڈاکٹرحفیظ قتیل کی نگرانی میں مکمل کیا۔ ڈاکٹر زینت ساجدہ کی پہلی تخلیق ’’لاٹری‘‘جوکہ افسانہ نما مضمون ہے اور ’’جلترنگ‘‘ انکا پہلا افسانوی مجموعہ ہے ۔انکی دیگر تصانیف و تالیف تلگو ادب کی تاریخ‘کلیات شاہی علی عادل شاہ ثانی‘حیدرآباد کے ادیب جلد اول اور دوم‘تاش کے محل(تلگو ناول کا ترجمہ)‘حکمران خواتین‘محب وطن خواتین‘دیوان حفیظ‘دکنی گیت‘رقص شرر(طنزیہ مضامین کا مجموعہ)‘بچوں کے لئے نگر نگر کی بات‘ہندی رسم الخط میں کلیات بحری مرتب کی اور ہندی کے نو شاعروں کا تذکرہ ’’ہندی کے نو رتن‘‘لکھا۔

چونکہ میں خود آرٹس کالج کی طالبہ ہوں اور تعلیم کے زمانے میں پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ اور پروفیسر میمونہ مسعود صاحبہ کی جماعتوںمیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئی اور اپنی ان شفیق اساتذہ سے فیض یاب ہونے کے علاوہ انہیں میں ’’فاطمہ میم‘‘ اور ’’میمونہ میم‘‘ کہتی رہی ہوں جبکہ ڈاکٹر زینت ساجدہ سے بھی 3 ملاقاتوں کا مجھے شرف حاصل ہواہے۔ڈاکٹر زینت ساجدہ سے میری پہلی ملاقات غالباً 2004 میں اس وقت ہوئی جب میں انٹرمیڈیٹ کی طالبہ تھی جبکہ دیگر 2 ملاقاتیں جامعہ عثمانیہ اور وویمنس کالج کوٹھی میں سیمنارس کے دوران ہوئی تھی۔دنیائے اردو جہاں ڈاکٹر زینت ساجدہ کو ’’زینت آپا‘‘کے نام سے مخاطب کرتی ہے وہیں میں اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتی ہوں کہ اس انتہائی قابل ترین شخصیت کو’’زینت میم‘‘ سے مخاطب کروں۔ زینت میم کے قلم کے آگے ویسے تو زندگی کا ہر شعبہ اور ہر موضوع سر خم کھڑا رہتا تھا اور اگر ان کی ادبی خدمات اور تحریروں کے محاسن کا تفصیلی احاطہ کرنے بیٹھیں تو ضخیم کتابیں بھی اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرتے ہوئے راقم الحروف کے سامنے ایک پر تشدد احتجاج کرنے لگیں لیکن مضمون کے اختصار کے پیش نظر ان کے انشائیوں کے کچھ پہلوؤں کو ضبط تحریر میں لارہی ہوں۔ زینت میم افسانہ نگار‘نقاد‘محقق‘ادیب‘مترجم ‘انشائیہ نگار اور نہ جانے کتنی صلاحیتوں کا ایک مجسمہ رہیں کیونکہ جو تحریریں ہم پڑھتے ہیں ان میں انکی شخصیت کے کئی پہلو نمایاں دکھائی دیتے ہے لیکن کئی ایسی خوبیاں بھی درپردہ ہیں جن کا تعلق ان کی تحریروں سے نہیں بلکہ شعبہ حیات کے مختلف پہلوؤں سے ہے ۔ویسے تو زینت میم کو افسانہ نگار کی حیثیت سے ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے لیکن ان کے انشائیے اردوادب کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔زینت میم کے انشائیوں کی مجموعی تعداد کیا ہے ؟ یہ بحث اور ہے لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ انہوں نے اپنے انشائیوں میں ایک معمولی شئے کو موضوع کے طور پر منتخب کرنے کے علاوہ کائنات کو تخلیق کرنے والے اللہ رب العزت کو بھی اپنے انشائیہ کا موضوع بنایا۔زینت میم کا ایک انشائیہ جس کا عنوان’’میری مرغیاں‘‘ہے‘ تودوسری جانب ایک اور انشائیہ ’’اگر اللہ میاں عورت ہوتے‘‘ہے۔ان دو انشائیوں کے عنوانات ہی بہترین ثبوت ہیں کہ زینت میم نے جہاں مرغی جیسے ادنیٰ پرندے کو عنوان بناتے ہوئے معمولی تصورکئے جانے واالے زندگی کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی تو وہیں دوسری جانب کائنات کو تخلیق کرنے والے اللہ رب العزت کو’’اگر اللہ میاں عورت ہوتے‘‘عنوان کے ذریعہ مخاطب کیا ہے جس میں عورتوں کے مسائل اور ان کا سامنا کرتے وقت صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد نادانی میں کی جانے والی شکایات کو قلم بند کیا ہے۔اس انشائیہ میں اللہ تعالیٰ سے بے صبر بندوں کی فطری شکایات کو پیش کیا گیا ہے ۔ان دو انشائیوں سے قطع نظر کئی اور ایسے انشائیے بھی زینت میم نے اردو ادب کو تحفہ میں دیئے ہیں جن میں خواتین اور ان کے مسائل و حالات کو اجاگر کیا گیا ہے‘ان میں ’’بی جمالو‘‘ ’’ہم ہیںتو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراںاور‘‘ ’’میں نے نوکری کی‘‘ ’’کاہے کروں سنگھار پیا مورا اندھا‘‘ ’’خالہ ماں سلام‘‘ ’’اگر میں مرد ہوتی‘‘ اور سونا لاون پی گئے‘‘ قابل ذکر ہیں۔

یہ خیال درست نہیں ہے کہ زینت میم نے اپنے انشائیوں میں صرف خواتین اور انکے حالات و مسائل کو ہی موضوع بحث بنایا ہے بلکہ زندگی کے دیگر مسائل کو بھی بڑی خوبی کے ساتھ انہوں نے اپنی تحریروں میں قید کیا ہے۔جیسے ’’دیکھا دیکھی‘‘ عنوان کا انشائیہ میں انسانی فطرت اور نقل کرنے کی عادت اور اس سے سماج میں ہونے والے بگاڑ کو موضوع بحث بنایا۔’’چلی گئی گرمی…. جب بیلا پھولے آدھی رات‘‘ زینت میم کا ایک ایسا انشائیہ ہے جس میں موسم گرما میں درجہ حرارت کے بڑھنے کی وجہ سے خواتین کی مصروفیات میں جہاں ایک جانب اضافہ ہوتا ہے وہیں مرد حضرات گی دیگر غیر ضروری بڑھتی مصروفیات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس انشائیہ میں دھوبی کی بڑھتی ضرورت اور اس ضرورت کی وجہ سے اسکے برتاؤ میں پیدا ہونے والے تکبر کے عنصر کو بھی بڑی خوبی سے اجاگر کیا گیا ہے۔گرما کی تعطیلات جو ہر کسی کے لئے خوشی کا پیغام بن کر آتی ہیں لیکن ان تعطیلات میں بھی اساتذہ کے مسائل کم نہیں ہوتے اس لئے زینت میم نے اساتذہ کو ’’بدنصیب قوم‘‘ سے مخاطب کیا ہے۔
زینت میم چونکہ حیدرآباد کی بیٹی ہیں اور ان کے انشائیوں میں حیدرآباد کی کوئی بات نہ ہو ایسا کیسے ممکن ہوسکتاہے۔’’چارمینارپر غلاف‘‘ ’’گنڈی پیٹ کا پانی‘‘ اور ’’کباڑخانے سے میوزیم تک‘‘زینت میم کے وہ انشائیے ہیں جن میں حیدرآباد کی تاریخ‘تہذیب وتمدن کے علاوہ گذرتے زمانے کے ساتھ حیدرآبادیوں کی طرززندگی پیش کی گئی ہے۔ ’’کباڑخانے سے میوزیم تک‘‘ پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو اس میں ’’تیمور کی گھوڑی کا نعل‘‘ بابرکا چغہ اکبر کا حقہ‘‘ ’’شہزادی زیب النساء کا قلم‘‘ ’’گلبدن کے نجی خطوط‘‘ ’’محمد قلی قطب شاہ کی انگوٹھی‘‘ ’’ابراہیم عادل شاہ کا تانپورہ‘‘ ’’عبدالقادر روہیلہ کی مونچھ کے بال‘‘ ’’رانا سانگا کی ڈھال‘‘ ’’جئے چند کی پگڑی‘‘ محمد قلی سے لیکر مرزا داغؔ تک ہر شاعر کے کلام کے قلمی نسخے ‘ بادشاہوں‘ بیگموں‘ راجاؤں‘ درباریوں‘رقاصاؤں‘باندیوں‘بھانڈوں‘اورنگ زیب کی اکلوتی تسبیح دس بار ‘بھاگ متی کا اگردان پندرہ بار اور لال کنورکی مسسی کو دو بار بیچنے کی بات کہی گئی ہے۔ ’’گنڈی پیٹ کا پانی‘‘ میں بیرونی ریاستوں سے حیدرآباد کے مضافاتی علاقوں میں لوگوں کے مستقل بسنے ‘حیدرآباد کی میزبانی سے مکمل استفادہ کرنے اور اپنا مسقبل سنوارنے کے باوجود حیدرآبادی مہمان نوازی کو برا بھلا کہتے ہوئے اپنے آبائی مقام کی مدح سرائی جیسے تلخ حقائق کو پیش کیا گیا ہے۔’’چارمینار پر غلاف ‘‘ زینت میم کا وہ انشائیہ ہے جس میں عنوان بظاہر بعید از حقیقت دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح اس تاریخی عمارت کو غلاف پہنایا جاسکتاہے لیکن ہم حیدرآبادی اپنے اس تاریخی اثاثہ کے ساتھ جو لاپرواہی اور غلط برتاؤ کررہے ہیں اس کی میم نے بہت عمدہ طریقہ سے عکاسی کی ہے۔زینت میم نے حیدرآبادی معاشرے میں موجود ایک ایسی برائی کی طرف نہایت ہی عمدہ انداز میں توجہ مبذول کروائی ہے کہ آج ہم فن تعمیر کی ان شاہکار عمارتوں پر کھرچ کھرچ کر اپنا نام اور بچکانے نقش ونگار بناتے ہوئے انکی تاریخی اور تہذیبی اہمیت کو ملیامیٹ کررہے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ چارمینار پر اپنا نام لکھ دینے سے یہ عمارت قلی قطب شاہ کی نہیں بلکہ انکی ملکیت ہوجائے گی ۔

زینت میم نے اپنے انشائیوں میں جہاں زندگی کے اہم مسائل کو اجاگر کیا وہیں انکا اسلوب بظاہر انتہائی سادہ لیکن مقصد کافی گہرا ہے۔زینت میم کے انشائیوں کی تحریر جہاں ظاہری طور پر عام بول چال کے الفاظ دکھائی دیتی ہے لیکن ان میں وہ ایک گہرا پیغام اور مسائل کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہیں۔ انکے انشائیوں کی تحریرسادہ‘بے تکلف‘ بے ساختہ‘مد عانویس‘ شگفتہ‘ ظریف‘متنوع وسنجیدہ‘اثرآفریں‘رواں‘خلوص وسچائی اور طنز ومزاح کی اعلیٰ شاہکارہے۔الغرض زینت میم کے انشائیے اردو ادب کا روشن باب ہیں اور اگر چند ایک انشائیوں کو آفاقی کہا جائے تو ان کے انشائیوں کے ساتھ مکمل انصاف ہوگا