چیف منسٹر کی کرسی کو لے کر پی ڈی پی کے باغی لیڈروں سے بی جے پی کی بات چیت

بی جے پی اپنی طرف سے جموں علاقے کے سینئر بی جے پی لیڈر اور یونین منسٹر جتیندر سنگھ کا نام پیش کررہی ہے‘ دوسری جانب سے سجاد لون کے لئے نمائندگی کاسلسلہ جاری ہے جو بی جے پی کی ساتھی جماعت کے لیڈر ہیں۔
نئی دہلی ۔جموں اور کشمیر میں دوبارہ حکومت کی تشکیل کے لئے بی جے پی اور اس کی ساتھی سجاد لون کی پیپلز کانفرنس اور پی ڈی پی کے باغی لیڈروں نے درمیان میں بات چیت ہورہی ہے‘ مگر چیف منسٹر کا کرسی پر کس کو فائز کیاجائے گا اس بات کو لے کر رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بی جے پی کسی بھی وزرات کے مطالبہ کو قبول کرنے کو تیار ہے مگر وہ چاہتے ہیں کہ چیف منسٹر کی کرسی پر اس کا قبضہ رہے۔ ذرائع کے مطابق وہ’’ ان کا ماننا ہے کہ ایسے موقع بار بار نہیں آتے جس کے ذریعہ اپنا چیف منسٹر جموں او رکشمیر میں بنایا جاسکتاہے‘‘۔

تاہم پی ڈی پی کے باغیوں کے اونچے ذرائع جس نے پچھلے ہفتہ دہلی میں بی جے پی سے ملاقات کی تھی کا کہنا ہے کہ وہ ایسا نہیں چاہا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ مستقبل میں کبھی جموں اور کشمیر میں بی جے پی کا چیف منسٹر بنے مگر اس کے لئے یہ وقت نہیں ہے‘‘۔

بی جے پی اپنی طرف سے جموں علاقے کے سینئر بی جے پی لیڈر اور یونین منسٹر جتیندر سنگھ کا نام پیش کررہی ہے‘ دوسری جانب سے سجاد لون کے لئے نمائندگی کاسلسلہ جاری ہے جو بی جے پی کی ساتھی جماعت کے لیڈر ہیں۔

جموں کشمیر ملک کی واحد مسلم اکثریت والی ریاست ہے اور 2019کے عام انتخابات میں جانے کے لئے بی جے پی کے پاس کافی اہمیت رکھتی ہے۔

پی ڈی پی اور بی جے پی میں اتحاد کے ذریعہ ریاست میں قائم کی گئی حکومت حالیہ عرصہ میں گرگئی تھی۔جموں او رکشمیر اسمبلی میں دو اراکین اسمبلی کی حالم پیپلز کانفرنس اور وہ پی ڈی پی کے باغی اراکین اسمبلی کے ساتھ اقتدار میں شامل ہونے کی سونچ رہی ہے۔

انڈیا ٹی کو ہفتہ کے روز دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں پی ڈی پی چیف محبوبہ مفتی نے کہاکہ’’ اگر دہلی ہماری پارٹی کو توڑنے کی کوشش کرے گی اور سجاد لون یا کسی اور چیف منسٹر بنائے گی ‘ تو یہ کشمیری عوام کے جمہوریت پر ایقان کو توڑ دے گا۔ دہلی کی جانب سے کسی قسم کی بھی مداخلت پر سنجیدگی کے ساتھ لیاجائے گا‘‘۔

بی جے پی جنرل سکریٹری رام مادھو نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ بی جے پی حکومت بنانے کی کسی قواعد میں سرگرم ہے۔ ہفتہ کے روز ٹوئٹس میں انہوں نے کہاکہ کچھ وقت کے لئے پارٹی ریاست میں گورنر رول کو وکالت میں ہے۔

مگر پی ڈی پی کے لیڈرس نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ مزی دداور ڈھائی سال اقتدار ملنے کی تمانعت پر اس کے28میں سے 21اراکین اسمبلی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرسکتے ہیں۔

اس پر تبصرہ کرنے سے لون نے انکار کردیا۔پی ڈی پی کے پانچ اراکین اسمبلی عمران رضا انصاری‘ اور ان کے چچا عابد انصاری‘ عبدالماجد پیدار‘ عباس وانی‘ اور جاوید حسن بیگ باغی رویہ اپناتے ہوئے پارٹی چیف پر ’’ پارٹی کو خاندانی میراث‘‘ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔

عمران انصاری نے انڈین ایکسپریس سے کہاکہ ’’ نئی سیاسی صف بندی ہورہی ہے۔ ہم حکومت کی تشکیل نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہم ان لوگوں کیساتھ جو جموں کے دو خاندانوں کی اجارہ داری کے خلاف ہیں۔ مذکورہ خاندان( مفتی اور عبداللہ) نے کشمیری جو جذباتی او ردہلی کو سیاسی دھوکہ دیا ہے۔

ہم نئی قیادت چاہ رہے ہیں‘ ترقی کیلئے ایک جامع قیادت جو کشمیر کو آگے لے کر جائے‘‘۔ جموں او رکشمیر87نشستی ایوان میں پی ڈی پی کے پاس28اور بی جے پی کے پاس 25جبکہ نیشنل کانفرنس کے 15کانگریس کے 12پیپلز کانفرنس کے 2اورآزاد امیدوار ہیں۔

پیپلز کانفرنس اور آزاد امیدواروں کی حمایت کے بعد حکومت بنانے کے لئے بی جے پی کو مزید16کی ضرورت پڑیگی۔نئی قیادت کے انتخابات کے لئے کم سے کم 19اراکین اسمبلی درکار ہیں۔

بی جے پی ذرائع کے مطابق انہوں نے پیپلز کانفرنس سے کہاکہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کے مذکورہ قواعد’ہارس ٹریڈنگ‘ کی طرح دیکھائی نہ دے اور بی جے پی کی امیج بھی متاثر نہ ہو‘‘۔

کرناٹک میں بی جے پی کوشکست کا سامنا کرنا پڑا ‘ حالانکہ ریاست کی بڑی پارٹی ہونے کے باوجود ایوان میں اعتماد کو ووٹ حاصل کرنے سے قبل ہی حکومت کو استعفیٰ پیش کرنا پڑا۔حکومت میں موجود ذرائع کو اس بات کی بھی فکر ہے کہ اگر پی ڈی پی کو کمزور کیاجاتا ہے تو وہ ختم ہوجائے گی۔

یہ نیشنل کانفرنس کے لئے اگلے الیکشن میں فائدہ مند ثابت ہوگا ‘ اور وہ ایوان میں اپنی بل پر حکومت بنانے کے قابل بن جائے گی۔