چیزیں جو معدوم ہوگئیں

میرا کالم سید امتیاز الدین
آج ہم کو بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ ہم نے اپنے بچپن یا لڑکپن میں جو چیزیں دیکھی تھیں وہ اب یا تو بالکل نظر نہیں آتیں یا ان کا رواج بہت کم ہوگیا ہے ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بیسویں صدی میں دنیا نے بے حد تیزی سے ترقی کی ہے اور انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے کئی ضرورت کی چیزیں پہلے سے کہیں بہتر آنے لگی ہیں ۔ چند باتیں فی الفور ذہن میں آئیں جن کا تذکرہ ہم اس کالم میں کرنا چاہتے ہیں۔
آج سے ساٹھ ستر سال پہلے اکثر گھروں میں گراموفون ہوا کرتا تھا ۔ لوگ اس زمانے کے ریکارڈ شوق سے خریدتے تھے اور گھر بیٹھے سنا کرتے تھے ۔ گراموفون میں چابی بھری جاتی تھی اور ریکارڈ بجایا جاتا تھا ۔ ایک مشہور گراموفون کمپنی تھی جس کا نام تھا ہزماسٹرس وائس ۔ اس کا علامتی نشان کتّا تھا ، ہمارے گھر میں بھی یہی گراموفون تھا ۔ ایک بار ہمارے بڑے بھائی نے اس میں ضرورت سے زیادہ چابی بھردی تھی اور ایک ریکارڈ بجادیا تھا جس کے بول تھے ’آہیں نہ بھریں شکوے نہ کئے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا‘ ۔ اچانک ایک دردناک آواز آئی اور ہمارا گراموفون بجنا بند ہوگیا ۔معلوم ہوا کہ گراموفون کی کمان ٹوٹ گئی اور اس کا بجنا بند ہوگیا ہے ۔ پھر کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ اسے دوبارہ بنواتے۔ اس کے بعد جب بجلی عام ہوئی تو ریڈیو کا استعمال شروع ہوا ۔ ریڈیو میں والو ہوتے تھے جن کی تعداد عموماً پانچ سے لے کر نو والو ہوتی تھی ۔ ریڈیو کا کھٹکا کھولنے کے ایک یا دو منٹ اسے گرم ہونے میں لگتے تھے پھر وہ سرگرم ہوتا تھا ۔ اس کے بعد اس کی سوئی گھماکر اپنا پسندیدہ پروگرام سنا کرتے تھے ۔ ایک اور چیز ہوتی تھی جسے ریڈیوگرام کہتے تھے جس میں ریڈیو کے ساتھ گراموفون بھی ہوتا تھا ۔ ریڈیو کی نشریات دن کے مخصوص اوقات میں ہوتی تھیں ۔ رات 11 بجے کے بعد تمام ریڈیو اسٹیشن بند ہوجاتے تھے ۔ ریڈیو کے بعد ٹرانسسٹر کا رواج شروع ہوا جسے لوگ بالخصوص نوجوان لئے لئے گھومتے تھے ۔ اب ٹی وی کا زمانہ ہے اور ریڈیو کا استعمال تقریباً حتم ہوگیا ہے ۔ریڈیو کے ڈرامے آدھے گھنٹے میں ختم ہوجاتے تھے ۔ لیکن ٹیوی سیریل مہینوں چلتے ہیں اور ختم ہونے کا نام نہیں لیتے ۔ ٹی وی چوبیس گھنٹے چلتا ہی رہتا ہے جس کی وجہ سے جلد سونے اور صبح میں جلد بیدار ہونے کی عادت کم ہوتی جارہی ہے ۔چھوٹے بچے بھی رات کے بارہ بجے تک آرام سے جاگتے ہیں ۔ ٹی وی سے آنکھیں اور اخلاق دونوں کے متاثر ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے ۔

جب پہلے پہل ٹیپ ریکارڈر نکلا تو وہ سائز میں صندوق سے کچھ کم نہیں تھا ۔ ان میں بڑے بڑے اسپول ہوتے تھے ۔ ہمارے بڑے بھائی شاذ تمکنت صاحب کے پاس ایک ایسا ہی قوی ہیکل ٹیپ ریکارڈر تھا جس کا نام گُرنڈگ تھا ۔ ایک بار وہ خراب ہوگیا ۔ اسے میکانک کے پاس لے گئے ۔ اس نے بڑے افسوس سے کہا کہ یہ ریکارڈر اب کسی کام کا نہیں رہا ۔ اس کے اسپیئر پارٹس کہیں نہیں ملتے ۔ بھائی نے کہا جن پارٹس کی ضرورت ہے ان کی فہرست بنا کر دیجئے ۔ اتفاق سے اس ریکارڈر کی معلوماتی کتاب ان کے پاس موجود تھی ۔ میکانک نے مطلوبہ اشیاء کی فہرست بنادی ۔ بھائی نے گرنڈگ کمپنی جرمنی کو خط لکھا ۔ بمشکل دو ہفتے گزرے ہوں گے کہ جرمنی سے جواب آگیا ۔ خط میں نہایت شکریے کے الفاظ لکھا تھا کہ آپ کے پاس ایسا ماڈل ہے جو خود ہمارے پاس موجود نہیں ہے ۔ لیکن آپ کو جن اسپیئر پارٹس کی ضرورت ہے وہ ہمارے پاس موجود ہیں جنھیں علحدہ فری گفٹ کے طور پر بھیجا جارہا ہے ۔ کمپنی نے ایک سرٹیفیکٹ بھی روانہ کیا جس کی رُو سے کسٹم ڈیوٹی سے مستثنی کیا گیا ۔ اس طرح مفت میں یہ ٹیپ ریکارڈر ٹھیک ہوگیا ۔

اسی طرح ایک زمانے میں گھروں میں چلمن پڑی رہتی تھی ۔ چلمن کی خوبی یا خرابی یہ تھی کہ چلمن کی دوسری طرف بیٹھنے والے باہر کا منظر صاف دیکھ سکتے تھے لیکن باہر کا آدمی اندر نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ اسی وجہ سے تاکا جھانکی کے شوقین اصحاب کو بڑی الجھن ہوتی تھی ۔ شاید حضرت داغؔ کوبھی اسی الجھن کا شکار ہونا پڑا تھا ۔ چنانچہ ان کا وہ مشہور شعر تو آپ نے بارہا سنا ہوگا ۔
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
آج کل گرمیاں شباب پر ہیں ۔ اس پر ہمیں یاد آیا کہ اکثر گھروں میں آئس کریم کا آلہ ہوتا تھا ۔ گرمی کے موسم میں ایک دو بار بڑے پیمانے پر آئس کریم بنتی تھی ۔ آلے میں آم کا رس یا خربوزہ کا مغز ، دودھ اور شکر کے ساتھ ڈالا جاتا تھا ۔ آئسکریم کے آلے کے اطراف برف اور نمک ڈالا جاتا تھا ۔ شروع میں تو آلہ آسانی سے گھومتا تھا اور بچے بھی اس کا ہینڈل گھماسکتے تھے ۔ جب آئس کریم جمنے کے قریب ہوتی تو گھر کے طاقتور اصحاب میدان میں اترتے تھے ۔ جب طاقتوروں کی طاقت جواب دینے لگتی تو یہ اس بات کا اشارہ ہوتا کہ اب آئس کریم تیار ہے ۔ آج کل آئسکریم پارلر بڑی تعداد میں کھل گئے ہیں اور خانہ ساز آئس کریم نہیں بنتی ۔
ہمارے بچپن میں کوئی خبر جلدی پہنچانی ہو تو لوگ تار کیا کرتے تھے تار والے رات میںبھی آجاتے تھے اور جس گھر تار آتا وہا ںلوگ ہڑبڑاکر جلد سے جلد دستخط کرکے تار حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ ہم نے ایک کارٹون دیکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ کسی صاحب کے پاس ایسے وقت تار آیا ہے جبکہ وہ نہارہے تھے اسی حالت میں وہ تولیہ لپیٹ کر باہر آتے ہیں ۔ اب اگر وہ تار کے فارم پر دستخط کریں تو تولیہ گرجانے کا اندیشہ ہے ۔ مجبوراً ڈاکیہ ان کا تولیہ تھام لیتا ہے تاکہ وہ دستخط کرسکیں ۔ کارٹون کے نیچے سرخی تھی ’’تار بھی کس وقت آیا ہے‘‘ ۔ اب تو خیر تار کا محکمہ ہی ختم ہوگیا ہے اور ٹیلی گرام فام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ۔ ٹیلی گرافک زبان بھی ختم ہوگئی۔
ہم اپنے بچپن میں جب صبح سو کر اٹھتے تھے تو صحن میں قسم قسم کی چڑیوں کی چہکار سنائی دیتی تھی ۔ اب چڑیاں بہت کم دکھائی دیتی ہیں ۔ حد ہے کہ چیل اور کوّے بھی نظر نہیں آتے ۔ سنا ہے کہ موبائل فون کے سگنلس (Signals) کی وجہ سے پرندوں کی تعداد میں کمی آتی جارہی ہے ۔ یہ فطرت کا بڑا نقصان ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگوں کے گھروں میں زیبائش کے لئے شیر کی کھال قالین پر بچھی ہوتی تھی ۔ یا شیر اپنے سر سمیت دیوار پر لگا ہوا ہوتا تھا ۔ اب شیر کا چمڑا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کسی کے پاس پایا جائے تو وہ قانون کی گرفت میں آسکتا ہے ۔

آج کل ڈاکٹر دواؤں کے ویسے نسخے نہیں لکھتے جیسے پہلے لکھا کرتے تھے ۔ پہلے ڈاکٹر کا نسخہ اس کے کمپیونڈر کے پاس جاتا تھا ۔ کمپونڈر اسے پڑھ کر دوا بناتا تھا اور بوتل پر مساوی خوراک کی چٹھی چپکاتا تھا ۔اب ویسی دواؤں اور خوراکوں کا دور ختم ہوگیا (صرف خوش خوراکی باقی رہ گئی ہے) یہ زمانہ دواؤں کی کمپنیوں کا ہے ۔
پھیری لگانے والے بھی ختم ہوتے جارہے ہیں ۔ پہلے سرشام پان بیچنے والے آواز لگاتے ہوئے جاتے تھے ۔ سوئیاں پوت والیاں آتی تھیں ۔ برتنوں کو قلعی کرنے والے گھروں کے پاس بھتّہ لگاتے تھے ۔ روئی دھنکنے والے توشک اور رضائی تیار کرتے تھے ۔ لڑکے ، لڑکیوں کے رشتے لگانے مشاطائیں آتی تھیں ۔ حیدرآباد میں مُشاطہ کہنے کا رواج تھا دراصل یہ فارسی لفظ ہے ، صحیح لفظ مَشّاطہ ہے ۔ شاید مومن کا شعر ہے۔
مَشّاطہ کا قصور سہی سب بناو میں
اس نے ہی کیا نگہہ کو بھی پُرفن بنادیا
مشاطہ گھر گھر جاتی تھی اور لڑکیوں کا بناؤ سنگھار کرتی تھی ۔ اگر کسی گھر میں کوئی خوبصورت لڑکی ہوتی اور کہیں لائق لڑکا ہوتا تو وہ دونوں گھرانوں میں ربط قائم کراتی اور اس طرح پیام سلام شروع ہوتا اور شادی طے پاتی ۔ اب میریج بیورو اور اخباری اشتہارات کا زمانہ ہے ۔ روزنامہ سیاست کے دوبدو پروگرام بھی بہت اچھا کام کررہے ہیں اور شادیاں آسان ہوگئی ہیں۔
معدوم شدہ چیزوں میں ایک عجیب و غریب مثال ہمیں یاد آرہی ہے۔ دہلی سے ایک رسالہ نکلتا تھا ماہ نامہ شمع ۔ یہ رسالہ ویسے تو فلمی نوعیت کا تھا لیکن اس میں نامور ادیبوں ، شاعروں کی تخلیقات بھی شائع ہوتی تھیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے شمع کی اشاعت اتنی بڑھی کہ یہ اردو کا سب سے کثیر الاشاعت رسالہ بن گیا ۔ اسی ادارے سے بچوں کے لئے کھلونا اور خواتین کے لئے بانو شائع ہونے لگے ۔ سونے پر سہاگہ شمع معّمے پورے ملک میں مقبول ہوگئے ۔ معموں کی تشریحات کے طور پر چھوٹے چھوٹے رسالے شائع ہونے لگے ۔ معموں کو جلد سے جلد دہلی پہنچانے کے لئے ایجنٹ مختلف محلوں میں اپنی اپنی دکانوں میں کاروبار کرنے لگے ۔ ایک رسالہ کئی لوگوں کے روزگار کا وسیلہ بن گیا ۔ مدیرانِ شمع کی کوٹھیاں دہلی کے بہترین علاقوں میں بن گئیں ۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ شمع اور دیگر رسالے بند ہوگئے ۔ مدیرانِ شمع کس حال میں ہیں ہم نہیں جانتے ۔ہم نے نہ ایسا عروج دیکھا نہ ایسا زوال ۔ اس طرح بھی اللہ بدل جاتی ہے دنیا ۔

آج سے آٹھ دس دن پہلے ہم نے ڈی ڈی اردو پر ایک مذاکرہ دیکھا ۔ اس میں ظفر آغا اور عبید صدیقی نے حصہ لیا ۔ موضوع تھا ’’اردو صحافت‘‘ اس مباحثہ میں بتایا گیا کہ اردو اخبارات و رسائل کی تعداد آج بھی بہت ہے لیکن ان کی اشاعت بتدریج گھٹ رہی ہے ۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اردو رسم الخط جاننے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے ۔ اردو خاندانوں کے بچے اردو ذریعہ تعلیم اختیار نہیں کرتے ۔ اگر صورت حال یہی رہی تو خدا نہ کرے پچاس ساٹھ سال کے بعد اردو بول چال کی زبان بن کر رہ جائے اور اسے لکھنے پڑھنے والے ڈھونڈے سے نہ ملیں ۔ صورت حال آپ کے سامنے ہے ۔ اردو کو باقی رکھنے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے ۔ ادارہ سیاست زباں دانی کے امتحان منعقد کرتا ہے ۔ اردو سیکھنے کی کتابیں سربراہ کی جاتی ہیں ۔ کئی اور تنظیمیں بھی اس کارخیر میں لگی ہیں ۔ اگر آپ اپنے بچوں ، بچیوں کا رشتہ اردو سے استوار رکھنا چاہتے ہیں تو کئی راستے کھلے ہیں ۔ لیکن ’تیرا ہی جی نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں‘ ۔ ہماری دعا اور آرزو ہے تو صرف اتنی کہ کل کلاں کوئی یہ نہ کہے کہ اردو بھی ایک چیز تھی جو معدوم ہوگئی ۔