پیہلو خان قتل کیس۔ الور پولیس نے تمام متاثرین پر گاؤ تسکری کے کیس مقدمہ درج کیا۔

بیہرور پولیس اسٹیشن سے تعلق رکھنے والے تحقیقاتی عہدیدار ہیڈ کونسٹبل ہارون خان کہاکہ متاثرین کے پاس سے کوئی دستاویزات ہمیں وصول نہیں ہوئے کہ کیوں انہیں گاؤ تسکری کا قصور وار قراردیاگیا ہے۔
جئے پور۔ڈائیر ی فارم کسان پیہلو خان کے قتل کے ضمن میں داخل دوسرے چارچ شیٹ میں متوفی خان کے دوساتھیوں کو ملزم کے طور پر شامل کرتے ہوئے تینوں کو ریاستی قانون کے تحت ’’ گائے تسکر‘‘ کے زمرے میں شامل کیاگیا ہے۔ جنوری 24کے روز بیہرور ایڈیشنل مجسٹریٹ کے پاس الور پولیس نے مذکورہ چارج شیٹ پیش کی ہے۔خان کا ہجوم کے ہاتھوں قتل یکم اپریل کو ہوا تھا‘ پولیس نے دو مقدمہ درج کئے تھے ۔ ایک مقدمہ خان کا قتل کرنے والوں کے خلاف دوسرے خان اور ا سکے ساتھیوں پر ’’گائے تسکری میں ملوث ‘‘ ہونے کا مقدمہ درج کیا ۔

ہجوم کے ہاتھ خان کے قتل کا ویڈیو دیکھنے کے بعد ہجوم میں موجود لوگوں کی شناخت کرتے ہوئے پولیس نو لوگوں پر مقدمات درج کیاتھا ۔ اس ضمن میں عدالت میں کیس چل رہا ہے ‘ مگر دوسرا تحقیقات پچھلے سال ستمبر میں شروع ہوئی جس میں خان کے قتل میں ماخود چھ لوگوں کے ناموں کو ہٹادیاگیا تھا۔پولیس نے کہاہے کہ قتل کے واقعہ کے وقت ان تما م چھ لوگوں کے موبائل فون کے نٹ ورک کی جگہ دوسری بتائی جارہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ قتل کے وقت موقع واردات پر موجود نہیں تھے جس کے بناء پر ان کے نام ایف ائی آر سے ہٹادئے گئے۔جنوری 24کے روز داخل کی گئی چار چ شیٹ جس میں چارملزمین کے نام شامل ہیں۔

مذکورہ ملزمین میں عظمت او ررفیق خان کے گاؤں ہریانہ میں واقعہ جمشید پور کے ساکن ہیں ‘ارجن لال وہ گاڑی کا ڈرائیور ہے جس پر اور گاڑی میں سوار اس کے والد پر یکم اپریل کے روز حملہ کیاگیا تھا ۔یکم اپریل کے روز پیہلو خان اور دیگر چار لوگوں جس میں اس متوفی خان کے دو بیٹے بھی شامل تھے وہ الور کے بیہرور سے اپنے گھر ہریانہ واپس لوٹ رہے تھے اسی دوران یکم اپریل کو گاؤ رکشکوں نے ان پر حملہ کردیاتھا۔

حملہ آور خان اور اس کے ساتھیو ں کو گائے تسکری کرنے والے قراردے کر انہیں بری طرح پیٹ رہے تھے۔ دودنوں بعد پیہلو خان کی موت واقعہ ہوگئی اور ہجوم کے ہاتھ خان کی موت کا یہ ویڈیو دستاویز کی شکل میں وائیر ل ہوا۔عظمت او رفیق کے علاوہ یادو اس حملے میں بری طرح زخمی ہوگئے اور کسی طرح ہجوم کے ہاتھوں جان سے مارجانے سے بچ کر موقع واردات سے فرار ہوگئے۔ چارچ شیٹ میں کہاگیا ہے کہ’’ چارچ شیٹ کی تکمیل او رگواہوں کے بیانات اور شواہد کی بناء پر ریاست راجستھان کے ایکٹ 1995کے دفعہ 5‘8‘9مقدمہ درج کیاگیا ہے ۔

بیہرو ر پولیس اسٹیشن سے تعلق رکھنے والے ہیڈکانسٹبل ہارون خان نے کہاکہ ملزمین نے اپنی بے گناہی کے متعلق ٹھو س شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے ۔ مذکورہ ایکٹ کے تحت کلکٹر سطح کا ضلع افیسر یاپھر حکومت کی جانب سے مصدقہ عہدیدار ہی ریاست راجستھان کے باہر دودھ دینے والے جانور لے جانے کی اجازت دے سکتا ہے۔چار چ شٹ داخل کرنے کے بعد عظمت نے کہاکہ ’’ کیایہی انصاف ہے؟ ہم پر ہجوم نے حملہ کیا ہمارے ساتھ مارپیٹ کی اور اب ہم ہی ملزم بنادئے گئے۔

میرے پاس جئے پور میونسپل کارپوریشن سے جانور کی خریدی کی باضابطہ رسید موجود ہے‘ جانور کی خریدی کے وقت کسی نے ہمیں مزید اجازت حاصل کرنے کی بات نہیں بتائی‘‘۔جو حملے کے بعد کئی ہفتوں تک زیرعلاج بھی رہا ہے۔عظمت جو فی الحال جئے سنگھ نگر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ مقیم ہے نے کہاکہ ’’ مارپیٹ کی وجہہ سے میری ریڈ ھ کی ہڈی میں گہرے زخم ائے۔ لاکھوں روپئے علاج پر خر چ ہوئے اور اب عدالت کی کشمکش سے بچنے کے لئے جائیدادیں فروخت کرکے پیسے ادا کرنا پڑرہا ہے۔ ہم نہیں جانتے ہمیں کرنا کیاہے‘‘۔

عظمت او ررفیق نے کہاکہ ہمارے پاس کوئی کام نہیں رہا اور گھر چلانے کے پیسے تنگی کا سامنا ہے۔ ارجن لال یاد کے پیسے نہ صرف اسپتال میں علاج کے دوران خرچ ہوئے ہیں بلکہ اس نے گاڑی کی مرمت پر بھی کافی خرچ کیاہے جس حملے میں تباہ ہوگئی تھی۔ یادو نے کہاکہ ’’ میں جانتا ہوں مجھے دوسرے زندگی ملی ہے کیونکہ میں اس حملے میں وہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ گاڑی کو بنانے میں تقریبا1.5لاکھ روپئے کا اب تک خر چ آیاہے اور گاڑ ی کے دستاویزات بھی پولیس کے پاس ہیں۔ اب میں نہیں جانتا کہ کس طرح عدالت کا خرچ برداشت کروں‘‘۔

اس کے والد جگدیش پرساد کو بھی پولیس نے مجرم بنایا ہے کیو نکہ گاڑی جگدیش کے نام پر ہے۔ حالانکہ پرساد حملے کے دوران ان تینوں کے ساتھ موجود نہیں تھا۔ اپنے گذر بسر کے لئے فی الحال یادو جئے پور میں چومو کے قریب واقعہ دیو پورا کے گاؤں میں ترکاری فروخت کررہا ہے۔