پریشان حال کشمیریوں کے لئے سی آر پی ایف بنی’مددگار‘

بیس اراکین پرمشتمل ٹیم کشمیریوں کی ہنگامی طبی حالات‘ ایمبولنس سرویس‘ خواتین کی سیفٹی‘ اور جو کچھ بھی انہیں درکار ہے اس پر رہنمائی کررہی ہے۔
سری نگر۔ ہمالیہ کے پہاڑی علاقوں میں واقع سی آر پی ایف کے ہیڈکوارٹر میں کچھ لوگ یونیفارم پہنے ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل اپنے ورک اسٹیشن میں چار لینڈ لائن فونس‘ کمپویٹرس ‘ فون ڈائرکٹوریس اور دیواروں پر نقشہ لٹکائے بیٹھے ہیں۔

جیسا ہی فون کی گھنٹی بجتی ہے ان میں سے ایک نہایت ادب واحترام کے ساتھ فون پر جواب دیتا ہے۔چشت کشمیری میں کچھ دیر کی بات چیت کے بعد وہ اپنے یونٹ کے دوسرے ساتھیو ں کواطلا ع دیتا ہے کہ ساوتھ کشمیر کے شوپیان ضلع کا ایک شخص لائن پر ہے اس کو اپنے بیٹے کے لئے دوا ء کی ضرورت ہے جو تیز بخار میں مبتلاء ہے۔

سی آر پی ایف کے اس جوان جس نے سکیورٹی وجوہات کی بنا ء پر اپنا نام ظاہر نہیں کیا کے مطابق’’ فون کرنے والے شخص نے اس سے کہاکہ وہ مضافاتی علاقے میں رہتا ہے جس کی وجہہ سے دوا ء لانے کے لئے وہ باہر نہیں جاسکتا۔

میں نے شوپیان کی اپنی ٹیم کو اطلاع دی کہ وہ دوائیں اس شخص کے گھر پہنچادیں‘‘۔انہو ں نے مزید کہاکہ ’’ ضرورت مند کی مدد کرنے سے بہتر کام دنیا میں او رکوئی نہیں ہے‘‘۔ اس روم سے چوبیس گھنٹے چلنے والے ہلپ لائن سنٹر میں کام کرنے والے بیس مددگاروں میں کا مذکورہ جوان ایک حصہ ہے۔

بیس اراکین پرمشتمل یہ ٹیم کشمیریوں کی ہنگامی طبی حالات‘ ایمبولنس سرویس‘ خواتین کی سیفٹی‘ آفات سماوی ‘جبری وصولی کی دھمکیوں کے خلاف اور جو کچھ بھی انہیں درکار ہے اس پر رہنمائی کررہی ہے۔

خطروں کا سامناکرنے والے یونیفارم زیب تک کئے16سی آر پی ایف کے جوان کشمیر کے بہت متاثرہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جو اس ٹیم کا حصہ بھی ہیں۔ انہیں مقامی زبانوں کشمیری ‘ اردو‘ پہاڑی ‘ ہندی اور گوجری پر کافی عبور حاصل ہے۔

اسٹنٹ کمانڈنٹ گل جنید خان جو ’مددگاروں ‘کی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں نے کہاکہ خاص طور پر ٹیم ممبرس کو اس کام کے لئے منتخب کیاگیا ہے‘ اور مزیدکہاکہ حالیہ دنوں میں رائفل مین اورنگ زیب اور جموں و کشمیر پولیس کے جوان جاوید احمد ڈار کی تشویش ناک حالات میں موت کی اطلاع کے بعدان جوانوں کی حفاظت کے اقدامات اہم ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ’’ ایک سال پرانے اس ٹیم کے بیس اراکین میں سے 16کشمیر سے وہیں ماباقی سب افیسر ریاست کے انتظامیہ امور سے اچھی جانکاری رکھنے والے ہیں ‘ جو ریاست کے اچھی تعیناتی پر کام کرچکے ہیں‘‘۔ سی آر پی ایف میں2016میں شامل ہونے والے28سالہ مسٹر خان وادی کے ساکن ہیں۔

حزب المجاہدین کے دہشت گرد برہان وانی کے 2016جولائی کو انکاونٹر میں موت کے بعد وادی میں تیزی کے ساتھ پھیل رہے تشدد کے پیش نظر پچھلے سال 16جون کو گورنر جموں او رکشمیر این این وہرہ نے ٹول فری نمبر14411پر مشتمل ’مددگار‘ ہلپ لائن کا افتتاح عمل میں لایاتھا۔

سی آر پی ایف نے اس ہلپ لائن کی شروعات سکیورٹی فورسس( سی آر پی ایف) او رعوام کے درمیان میں دوستانہ پیش رفت کی غرض سے کیا ہے تاکہ وہ دہشت گردی کے متعلق اپنے مسائل پیش کریں جو تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔

مسٹر خان نے کہاکہ’’ ہلپ لائن کو 16جون2017سے 25جون 2018تک 2.65لاکھ فون کالس وصول ہوئے جس میں عوامی افادیت سے لے کر ‘ عورتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ‘ گھریلو تشدد‘ عوامی حفاظت اور سکیورٹی‘ جموں او رکشمیرکے مذہبی یاتریوں کیلئے موسم کی جانکاری ‘ ٹریفک‘ فلائٹس‘ اور ٹرین باتیں شامل ہیں‘‘۔ سی آر پی ایف کے اعلی حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ ہلپ لائن چوبیس گھنٹے کام کرتی ہے ۔

جہاں پر دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے زمین پر سی آر پی ایف کی ٹیم متحرک ہے وہیں پر اس ٹیم کا کام نہایت منفرد ہے۔ اور نصف رات کے درمیان بھی کوئی ضرورت مند فون کرتا ہے تو اس تک رسائی اور مدد پہنچانے کاکام کیاجاتا ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ’’ ریاستی انتظامیہ اور پولیس کی مدد کے بغیر یہ کام مشکل تھا‘‘۔

مسٹر خان کا کہنا ہے کہ نہ صرف اپریٹرس بلکہ کونسلنگ کرنے والے بھی کشمیری لوگ ہیں۔

انہو ں نے کہاکہ وہ لوگ مقامی زیان اور مقامی لوگوں کو درپیش مسائل سے وہ اچھی طرح واقف بھی ہیں۔

مسٹر خان کا کہنا ہے کہ اس ٹیم نے 46یونٹ ضرورت مندوں کے لئے خون کا عطیہ دیا ہے ‘ 26سرجریاں یا تو ریاست کے سرکاری اسپتال یا پھرسی آر پی ایف میڈیکل یونٹ میں انتظام کرائی ہیں اور کچھ لوگوں کی ڈائیلاسیس میں مدد کی ہے جو اے ائی ائی ایم ایس دہلی اور پی جی ائی چندی گڑہ کی مدد سے پوری ہوئی ہیں

۔سڑکوں سے جڑے 31شکایت کو حل کرنا ‘33شکایتیں پانی کی اور 23شکایت برقی مسائل کی بھی تھیں جس کو مددگار ٹیم نے حل کیاہے۔

ملازمتوں کے متعلق مجوزہ امتحانات کی بھی جانکاری لوگوں کو مددگار ٹیم فراہم کرتی ہے۔

ایک سال میں80شکایتیں لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ ہراسانی کی وصول ہوئی ہیں۔خان نے کہاکہ ’’ کچھ واقعات میں ہم نے خاطیوں کو انتباہ دیا ہے اور کچھ میں مقامی پولیس کی مدد سے شکایت درج کرائی گئی ہے‘‘