پریشان حال ماں کی امید اب بھی برقرار

فاطمہ نفیس اپنے بیٹے کی تلاش کے لئے طویل جدوجہد کرنے والا چہرہ بن گئی ہیں۔وہ بھی دوسروں کی طرف اس بات سے اچھی طرح واقف نہیں کہ نجیب اب واپس نہیں ائے گا ‘مگر وہ اس جدوجہد میں شکست قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
بدایوں۔ہررات کو جب اترپدیش کے بدایوں میں ایک خاموشی طاری ہوجاتی ہے اور لوگ محو خواب ہوتے ہیں ‘ فاطمہ نفیس جاگتی رہتی ہیں۔ گھر کے باب الدخلہ کے قریب میں واقعہ اپنے کمرے میں رکھے ہوئے بیڈ پر وہ لیٹ کر دروازے پر دستک کا اس امید کے ساتھ انتظار کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا واپس ائے اور وہ اس کودیکھیں گی۔ہر روز ان کی آنکھیں اس امید کے ساتھ جاگتی رہتی ہیں کہ نجیب ایک روز گھر واپس ائے گا۔

اسی امید میں وہ ہر روز دس گھنٹے کا سفر کرتے ہوئے اترپردیش کے شہر بدایوں سے راجدھانی دہلی 275کیلومٹر کی مسافت طئے کرتی ہیں تاکہ نجیب کی تلاش میں منعقدہ احتجاج او رپریس کانفرنس میں شرکت کرسکے۔نجیب جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بائیو ٹکنالوجی کا طالب علم تھاوہ پچھلے سال یونیورسٹی ہاسٹل آر ایس ایس کی حمایت طلبہ تنظیم اے بی وی پی سے جھڑپ کے بعد سے لاپتہ ہے۔ نجیب کی تلاش میں دہلی کے اندر منعقد ہونے والے ہر احتجاج میں 48سال کی نفیس موجود رہتی ہیں۔ نفیس اور ان کے گھر والے بشمول شوہر ‘ تین بیٹے اور ایک بیٹی کے لئے احتجاج ایک ہتھیار ہے۔

نفیس کی شوہر خرابی صحت کی وجہہ سے خود کو دعاؤں تک ہی محدود رکھے ہوئے ہیں۔نفیس نے بتایا کہ ’’ ہر وقت جب وہ دہلی کے لئے روانہ ہوتی ہیں تو دودنوں تک کا کھانا تیار کرکے گھر میں رکھ دیتی ہیں۔میری رشتے کی ایک بہن میرے ساتھ دہلی چلتی ہے تو دوسری بہن گھر میں نجیب کے والد کا خیال رکھنے کے لئے رہتی ہے۔ ہمارے پاس دہلی روانگی کے لئے صرف بس کا انتخاب کا ذریعہ ہی ہے حالانکہ کار کے مقابلے بس کا سفر کافی طویل ہے‘‘۔

اس خاندان کے پاس آمدنی کا کوئی ٹھوس ذریعہ نہیں ہے حالیہ دنوں میں نفیس نے ایک پلاٹ فروخت کرنے کے بعد جو رقم جمع کی ہے اس سے حاصل آمدنی سے وہ اور ان کا بیٹا دہلی کا سفر کرتے ہیں جس کے لئے دو ہزروپئے کا خرچ آتا ہے۔فاطمہ نفیس نے کہاکہ’’ میرا بڑا لڑکا مجیب اپنے بھائی نجیب کی گمشدگی کے بعد سے ملازمت کی تلاش کررہا ہے مگر وہ اب اپنے بھائی کی تلاش میں ہے۔ میں کسی بھی طرح پلاٹ بیچ کر جمع کی گئی رقم سے اخراجات برداشت کررہی ہوں۔ مگر اب وہ پیسے بھی ختم ہورہے ہیں۔ مجھے امید ہے مجیب کوبہت جلد ملازمت مل جائے گی‘ ورنہ حالات خراب ہوجائیں گے‘‘۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی کہ متواتر نجیب کا پتہ چلانے میں ناکامی مل رہی ہے اس کے علاوہ گھر والوں کو سوشیل میڈیا پر چل رہے تبصروں سے مقابلہ کرنا پڑرہا ہے۔ نجیب کے بھائی مجیب نے کہاکہ ہروقت اس بات کا سوشیل میڈیا پر مسلسل دعوی کیاجارہا ہے کہ نجیب سیریا پہنچ گیا ہے اور ائی ایس ائی ایس میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔پولیس نے اس قسم کے دعوؤں کو مسترد بھی کردیاہے ۔مجیب نے کہاکہ ’’سوشیل میڈیا پر اس قسم کی بیہودگی چل رہی ہے۔

لوگ بناء کسی جواز کے پوسٹ کررہے ہیں اور اس پر تبصرہ بھی کیاجارہا ہے۔میں مذکورہ پوسٹ کے اسکرین شاٹ لیکر کرائم برانچ عہدیداروں کو بھیجا ہے۔ مگر میں نے اس کے متعلق امی ( فاطمہ نفیس) کو نہیں بتایاہے۔ گھر والوں نے کہاکہ وہ سی بی ائی او رپولیس کی تحقیقات سے مایو س ہیں۔فاطمہ نفیس نے کہاکہ’’ جب ہم فون کرتے ہیں اسی وقت سی بی ائی افیسر اس ضمن میں بات کرتے ہیں۔ عدالت میں سنوائی کے دوران بھی سی بی ائی افیسرس موجود نہیں رہتے‘ صرف ان کے وکلاء آتے ہیں‘‘۔فاطمہ نفیس اپنے بیٹے کی تلاش کے لئے طویل جدوجہد کرنے والا چہرہ بن گئی ہیں۔

وہ بھی دوسروں کی طرف اس بات سے اچھی طرح واقف نہیں کہ نجیب اب واپس نہیں ائے گا ‘مگر وہ اس جدوجہد میں شکست قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔نجیب کے کمرے میں اس کا شناختی کارڈ کسی کھوٹی سے آج بھی لٹکا ہوا ہے۔ اس کے بلکل بازو میں لکڑی کی ایک چھوٹی الماری ہے۔جس میں نجیب کی کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ نفیس نے کہاکہ وہ ہر روز ان کتابوں پر سے گرد وغبار صاف کرتی ہیں۔انہو ں نے مزیدکہاکہ’’ میں چاہتی ہوں اس کا کمرے صاف ستھرا اور کتابیں بھی صاف رکھوں۔ ہوسکتا ہے وہ کل واپس آجائے‘‘