پرکھوں کی نشانی کو مٹانے کا چلن ہے

یوگی کی نام بدلو سرکار
گنجے کو ناخن مل گئے

رشیدالدین

’’ اچھے دن ‘‘ اگرچہ یہ نعرہ نریندر مودی نے اقتدار کیلئے لگایا تھا لیکن حکومت کے 4 سال کی تکمیل کے بعد اپوزیشن کے اچھے دن دکھائی دے رہے ہیں۔ نعرہ بھلے ہی کسی نے لگایا ہو لیکن فائدہ دوسرے کو ہورہا ہے۔ حالیہ انتخابات سے قبل بی جے پی اور نریندر مودی کی مقبولیت کا پول کھلنے لگا ہے۔ چار اہم ریاستوں کے اسمبلی انتخابات آئندہ ماہ مقرر ہیں۔ ان میں تین ریاستوں میں بی جے پی کا اقتدار ہے، لہذا اسے منی جنرل الیکشن کہا جارہا ہے۔ تینوں ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اقتدار بچانا نریندر مودی اور ان کے وزیر باتدبیر امیت شاہ کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اگر اقتدار بچ جائے تو دہلی کی کرسی بھی بچ سکتی ہے ورنہ اندرونی بغاوت کا اندیشہ ہے ۔ دوسری طرف قومی سطح پر مخالف بی جے پی اپوزیشن اتحاد کی تشکیل کی سرگرمیوں میں شدت پیدا ہوچکی ہے ۔ ان کوششوں کو اس وقت مزید حوصلہ ملا جب کرناٹک میں کانگریس۔جنتا دل سیکولر اتحاد کو ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔ لوک سبھا کی 3 اور اسمبلی کی 2 نشستوں کے ضمنی چناؤ میں کانگریس ۔ جے ڈی ایس اتحاد کو لوک سبھا کی 2 اور اسمبلی کی 2 نشستوں پر کامیابی ملی ۔ کرناٹک سے اپوزیشن کے حق میں غیر متوقع نتائج نے بی جے پی کے حوصلوں کو پست کردیا ہے جبکہ کانگریس اسے عوامی رجحان سے تعبیر کر رہی ہے۔ کیا واقعی عوام کا موڈ اور دیش بدل رہا ہے۔ کیا بی جے پی کیلئے برے دنوں کے آنے کا اشارہ ہے ؟ اس طرح کے کئی سوالات سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بن چکے ہیں۔ تین ریاستوں سے جو رجحانات مل رہے ہیں، وہ بی جے پی کیلئے حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ کانگریس کو زیادہ تر سروے میں برتری ظاہر کی گئی ہے۔ کرناٹک کے نتائج بی جے پی کیلئے جھٹکا اور آئی اوپنر ہیں۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر عوامی رجحان میں تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا جس ریاست میں اپوزیشن سیکولر اتحاد کی داغ بیل ڈالی گئی اسی ریاست نے ان طاقتوں کو استحکام بخشا ہے۔ ایچ ڈی کمارا سوامی کی تقریب حلف برداری میں تمام اہم پارٹیوں کے قائدین ایک پلیٹ فارم پر دکھائی دیئے ۔ چندرا بابو نائیڈو نے پہلی مرتبہ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کے ساتھ ا سٹیج شیئر کیا ، اب اسی ریاست کے ضمنی چناؤ کے نتائج نے کانگریس زیر قیادت اپوزیشن اتحاد کو عملی شکل دی ہے۔ اپوزیشن اتحاد بی جے پی کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے ۔ کرناٹک کے نتائج سے تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو فائدہ پہنچنا یقینی ہے۔
کسی نے درست کہا کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ ظاہر ہے کہ بزرگوں کی بات ہمیشہ سچ ثابت ہوتی ہے۔ پتہ نہیں کتنے سال پہلے یہ محاورہ کہا گیا تھا لیکن آج بھی اس کی افادیت اور نتائج دیکھے جارہے ہیں۔ اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ نے جس انداز میں مسلم ناموں کی تبدیلی کی مہم شروع کی ہے، اس سے یہ محاورہ پھر ایک بار سیاسی مبصرین کے ذہنوں میں تازہ ہوگیا۔ اترپردیش میں عوام کی بھلائی اور ریاست کی ترقی میں ناکام یوگی ادتیہ ناتھ نے مذہب کا سہارا لیکر اپنی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ مسلم ناموں کی تبدیلی کے ذریعہ وہ ہندوؤں میں مسلمانوں سے نفرت کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ 2019 ء عام انتخابات میں مذہبی جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی جاسکے۔ یوگی نے مغل سرائے سے ناموں کی تبدیلی کا آغاز کیا اور دوسرا نشانہ الہ آباد رہا۔ گزشتہ دنوں فیض آباد کو ایودھیا کا نام دیکر یوگی ادتیہ ناتھ نے نہ صرف رام مندر مسئلہ کو ہوا دینے کی کوشش کی بلکہ ملک بھر میں یہ تاثر دیا ہے کہ اترپردیش میں ہندوتوا طاقتیں من مانی کرتے ہوئے ہندو راشٹر کی سمت پیشقدمی کر رہی ہے۔ یوگی کے بعد گجرات کے چیف منسٹر وجئے روپا نے احمد آباد کا نام بدل کر کرناوتی رکھنے کا اعلان کردیا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تین ریاستوں میں بی جے پی کے کمزور موقف کو دیکھتے ہوئے پارٹی نے اچانک ہندوتوا ایجنڈہ کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں کوئی ایسا کارنامہ نہیں جسے پیش کرتے ہوئے عوامی تائید حاصل کی جاسکے۔ ایسے میں مذہبی سیاست کو اختیار کرنا بی جے پی کی مجبوری کے سواء کچھ نہیں ہے۔ ایک طرف مسلم نام تبدیل کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ کو ہوا دینے کیلئے یوگی ادتیہ ناتھ نے 151 میٹر طویل مجسمہ نصب کرنے کا اعلان کردیا۔ کیا ناموں کی تبدیلی اور مجسمہ کی تنصیب سے ریاست کے عوام کی بھلائی ممکن ہے ؟ اس کا جواب تو 2019 ء کے انتخابات میں رائے دہندے دیں گے۔ مسلمانوں کے ناموں سے نفرت کا اظہار سب سے پہلے نریندر مودی نے کیا جب دہلی میں اورنگ زیب کے نام سے موسوم سڑک کو اے پی جے عبدالکلام سے بدل دیا گیا ۔ اگر مودی اورنگ زیب کی جگہ سنگھ پریوار کے کسی قائد کا نام رکھتے تب بھی مسلمانوں کو کوئی حیرت نہ ہوتی۔ اے پی جے عبدالکلام کا نام رکھنا محض ایک سیاسی حربہ ہے۔ دہلی میں دیگر سڑکوں اور یادگاروں کے نام بھی مسلمانوں سے منسوب ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کے نام بھی تبدیل کئے جائیں گے۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے رام کے نام پر ایرپورٹ اور دشرتھ (رام کے والد) کے نام پر میڈیکل کالج کے قیام کا اعلان کیا۔ ناموں کی تبدیلی کا رجحان یوگی ادتیہ ناتھ کیلئے اس لئے بھی نیا نہیں ہے کیونکہ ان کا اصلی نام ان کے گرو نے تبدیل کردیا تھا ۔ ادتیہ ناتھ کا اصلی نام اجئے سنگھ بشت ہے۔ 1990 ء میں وہ رام مندر تحریک سے وابستہ ہوگئی اور مہنت اویدناتھ سے قربت ہوگئی ۔ اجئے سنگھ بشت کی فرمانبرداری سے متاثر ہوکر مہنت اویدناتھ نے یوگی ادتیہ ناتھ رام رکھا۔ اور اس یوگی کو اپنا جانشین بنایا۔ یوگی ادتیہ ناتھ گورکھ ناتھ مٹ کے پٹھادی پتی ہیں لیکن شائد وہ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ اس مٹھ کیلئے اراضی کا عطیہ ایک مسلم نواب نے دیا تھا۔ شہروں اور دیگر یادگاروں کے ناموں کی تبدیلی کے ساتھ یوگی کو اپنا نام بھی بدل کر اصلی نام پر واپس آجانا چاہیئے ۔ ناموں کی تبدیلی کی یہ مہم کہاں جاکر رکے گی ، کہنا مشکل ہے ۔ ہم تو یوگی اور ان کے ہم خیال ، دیگر بی جے پی چیف منسٹرس سے صرف اتنا کہیں گے کہ وقفہ وقفہ سے ایک ایک نام کیوں ، ایک ہی وقت میں تمام مسلم ناموں کو تبدیل کردیں۔ ناموں کی تبدیلی کی اس مہم پر مسلمانوں نے اپنے شعور کا مظاہرہ کیا اور کوئی بھی جذباتی ردعمل دینے سے گریز کیا ۔ مسلمانوں کا سیاسی شعور پختہ ہوچکا ہے اور وہ صحیح وقت پر اپنا فیصلہ ووٹ کی شکل میں دینا جانتے ہیں۔ یوگی ہو یا کوئی اور بھلے ہی تمام نام تبدیل کرلیں لیکن ان کے بعد آنے والی حکومت تمام ناموں کو بحال کردے گی۔ یوگی نے اپنے سیاسی گروہ نریندر مودی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سردار پٹیل کی طرح رام کا مجسمہ نصب کرنے کا اعلان کیا لیکن وہ زمانہ نہیں جب مجسمہ اور ناموں کے ذریعہ ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ آج کل انفارمیشن ٹکنالوجی کا دور ہے اور عوام کو مذہب کے نام پر جذباتی نہیں کیا جاسکتا لیکن آئی ٹی کے اس دور میں بی جے پی عوام کو پتھر کے زمانہ میں واپس لیجانا چاہتی ہے۔ لارڈ رام کا مجسمہ نصب کرنے کے بعد مودی کو چاہئے کہ وہ رام بھکتی میں اپنا کیمپ آفس مجسمہ کے پاس منتقل کرلیں اور وہیں سے بیٹھ کر حکومت چلائیں تاکہ کام کاج اور بھی آسان ہوجائے۔ دیپاولی کے موقع پر جنوبی کوریا کی خاتون اول کو ایودھیا مدعو کرتے ہوئے یوگی نے جدوجہد آزادی کے وقت سنگھ پریوار کی جانب سے انگریزوں کی غلامی کی یاد تازہ کی ہے۔اترپردیش ہو یا ملک کا کوئی اور علاقہ مسلمانوں سے منسوب یادگاروں کے نام بھلے ہی تبدیل کئے جائیں لیکن تاریخ میں مسلمانوں کی عظمت کے نشان مٹائے نہیں جاسکتے۔ ملک کے چپہ چپہ میں اس قدر نشانیاں ہیں کہ نام تبدیل کرتے تھک جائیں گے لیکن نشانیات ختم نہیں ہوں گی۔ اب تو رام مندر کی تعمیر کیلئے آرڈیننس کی تیاری ہے اور عام انتخابات سے عین قبل ممکن ہے کہ مودی حکومت آرڈیننس جاری کردے۔ سپریم کورٹ کے خلاف مرکزی وزراء اور سنگھ پریوار کے بیانات سے اس کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ 2019 ء کا الیکشن بی جے پی ہندوتوا ایجنڈہ پر لڑنے کی تیاری میں ہے۔ شہود آفاقی کا یہ شعر موجودہ حالات پر صادق آتا ہے۔
تمغہ انہیں معراجِ شرافت کا دو جن میں
پرکھوں کی نشانی کو مٹانے کا چلن ہے