پروفیسر سراج الحسن، پروفیسر فیضان مصطفیٰ اور ڈاکٹر اسلم پرویزکے نام زیر غور

حیدرآباد ۔ 29 ۔ جون (سیاست نیوز) مرکزی حکومت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر کے عہدہ پر 3 ماہرین تعلیم کے ناموں پر غور کر رہی ہے۔ وزارت فروغ انسانی وسائل کی جانب سے تشکیل دی گئی سرچ کمیٹی نے حکومت کو تین ناموں کی سفارش کی ہے۔ مرکزی حکومت کے باوثوق ذرائع کے مطابق سرچ کمیٹی نے جن ناموں کی سفارش کی ان میں پروفیسر سراج الحسن ڈائرکٹر انسٹی ٹیوٹ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ بنگلور، پروفیسر فیضان مصطفیٰ وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی آف لاء حیدرآباد اور ڈاکٹر اسلم پرویز پرنسپل ذاکر حسین دہلی کالج شامل ہیں۔ سرچ کمیٹی نے 100 سے زائد درخواستوں اور اپنے طور پر ماہرین تعلیم کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے مذکورہ تین ناموں کو قطعیت دی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ہفتہ یہ تین نام مرکزی حکومت کو روانہ کردیئے گئے۔ ناموں کے ساتھ ساتھ ان شخصیتوں کی تعلیمی خدمات اور انتظامی صلاحیتوں کی تفصیلات بھی روانہ کی گئیں۔ پروفیسر سراج الحسن مختلف شعبوں میں اپنی تحقیقی سرگرمیوں کے باعث ایک نامور سائنسداں کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر دو شخصیتوں نے بھی مختلف یونیورسٹیز اور شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ مختلف اداروں میں ان کی صلاحیتوں کے مظاہرہ کو دیکھتے ہوئے سرچ کمیٹی نے اردو یونیورسٹی کی بہتری اور اس کی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے ان کے ناموں کی سفارش کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ان ناموں پر وزارت فروغ انسانی وسائل سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کریںگے۔ اردو یونیورسٹی کے چانسلر اور وزیراعظم کے بااعتماد رفیق ظفر سریش والا سے بھی اس مسئلہ پر مشاورت کا امکان ہے۔ توقع ہے کہ بہت جلد اردو یونیورسٹی کیلئے نئے وائس چانسلر کے نام کا اعلان کردیا جائے گا ۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ 5 برسوں کے دوران مختلف شعبوں میں یونیورسٹی کے مظاہرہ سے مرکزی حکومت خوش نہیں ہے۔ لہذا اس نے یونیورسٹی کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے موزوں شخصیت کے انتخاب کا فیصلہ کیا ہے ۔ بتایا جاتاہے کہ نئے وائس چانسلر کے تقرر کے ساتھ انہیں ایکشن پلان بھی دیا جائے گا، اس پر عمل آوری کیلئے نگرانکار کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔ ہر تین ماہ میں یونیورسٹی کی کارکردگی کا باقاعدہ طورپر جائزہ لیا جائے گا ۔ بتایا جاتا ہے کہ وائس چانسلر کے عہدہ کیلئے مختلف افراد نے مختلف گوشوں سے سرگرم پیروی کی تھی لیکن مرکزی حکومت نے کسی بھی پیروی کو قبول کرنے سے گریز کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی پر گزشتہ کئی برسوںسے اپنا تسلط برقرار رکھنے والے شمالی ہند کے عناصر اس بات کے کوشاں ہیں کہ آئندہ وائس چانسلر بھی شمالی ہند سے ہوں۔ واضح رہے کہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد سے صرف ایک وائس چانسلر کا تعلق جنوبی ہند سے رہا ۔ سرچ کمیٹی نے جن تین ناموں کی سفارش کی ہے ، ان میں دو کا تعلق دہلی سے ہے جبکہ ایک جنوبی ہند کے علاقہ بنگلور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی دوران نئے وائس چانسلر کیلئے یونیورسٹی میں اصلاحات سے متعلق طویل ایجنڈہ منتظر ہے۔ وائس چانسلر کی ذمہ داری سنبھالتے ہی انہیں اہم عہدوں پر تقررات کرنے ہوں گے ، اس کے علاوہ یونیورسٹی کے غیر مسلمہ کورسس کی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے منظوری کا حصول جیسے امور پر فوری توجہ کی ضرورت ہوگی۔ سبکدوش وائس چانسلر نے اپنی مدت کے آخری ایام میں تقررات اور ترقی سے متعلق جو فیصلے کئے تھے ان کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ انچارج وائس چانسلر نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اگزیکیٹیو کمیٹی کے اجلاس میں بعض اہم پالیسی فیصلے کئے جن کا جائزہ لینا ہوگا۔ یونیورسٹی کے وہ اساتذہ اور ملازمین جو گزشتہ چند برسوں سے جاری بے قاعدگیوں اور قواعد کی خلاف ورزی سے عاجز آچکے ہیں، انہیں نئے وائس چانسلر کی آمد کا بے چینی سے انتظار ہے جبکہ سابق وائس چانسلر کے حواری گزشتہ چند برسوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے سرگرداں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سبکدوش وائس چانسلر نے انچارج وائس چانسلر کو بعض ایسے افراد کے ناموں کی فہرست حوالے کی ہے، جنہیں وہ یونیورسٹی میں طویل عرصہ تک برقرار دیکھنا چاہتے ہیں۔ بتایا جاتاہے کہ انہوں نے میعاد کی تکمیل اور مقررہ عمر کی حد گزرنے کے باوجود بعض افراد کی میعاد میں اضافہ کی سفارش کی ہے۔