پروفیسر آل احمد سرور (1911-2002)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
پروفیسر آل احمد سرورؔ جیسی بڑی شخصیت کے بارے میں کچھ لکھنے یا اظہار خیال کرنے کا ایک واضح نقصان تو مجھے یہ پہنچا ہے کہ مجھے اچانک اپنی کم مائیگی، کم علمی، بے حیثیتی اور بے بضاعتی کا شدت سے احساس ہونے لگا ہے۔ اگر سرورؔ صاحب پر کچھ لکھنے کی بات نہ ہوتی تو میں آج یوں اپنے آپ کو اتنا حقیر، فقیر، پر تقصیر اور  ذرّہ بے توقیر کی طرح کیوں پاتا۔ خود کو اپنے اصلی روپ میں دیکھنے کے لئے بھی بڑے حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے اور میں یہ حوصلہ خود میں نہیں پاتا۔ قدآور شخصیتوں پر لکھنے کا دوسرا زیاں یہ ہوتا ہے کہ لکھنے والے کو اپنے قد کا صحیح صحیح اندازہ ہوجاتا ہے۔ جو لوگ میری طرح بے وقوفوں کی جنّت میں رہتے ہیں اُنھیں اپنے قد کے بارے میں کچھ اتنی خوش فہمی ہوتی ہے کہ لال قلعہ کے دروازے کے نیچے سے بھی گزریں تو اپنے سر کو بربنائے انکسار نہیں بلکہ بربنائے غرور جھکالیتے ہیں۔
سرورؔ صاحب اُردو ادب کی ان چند عظیم ہستیوں میں سے ہیں جن کا میں اتنا احترام کرتا ہوں کہ مارے احترام کے اُن سے ہم کلام ہوتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں۔ اُن کے علم و فضل کو دیکھتا ہوں تو اپنی جہالت کچھ اور بھی روشن اور عیاں ہوجاتی ہے۔ ماہ و سال کا جہاں تک تعلق ہے جولائی 1936 ء میں جب میں پیدا ہوا تھا تو سرورؔ صاحب نہ صرف علی گڑھ یونیورسٹی میں اُردو کے لیکچرر بن چکے تھے بلکہ ان سے بہت پہلے انگریزی کی لیکچراری چھوڑ کر اُردو میں اپنا شعری مجموعہ ’’سلسبیل‘‘ بھی شائع کراچکے تھے۔ سرورؔ صاحب کو سب سے پہلے بہت عرصہ قبل حیدرآباد کے اُردو ہال میں تقریر کرتے ہوئے سنا اور دیکھا تھا۔ اُن کی تقریر سنی تو احساس ہوا کہ آدمی پروفیسر ہونے کے باوجود عقلمندی کی باتیں کرسکتا ہے۔ اُن کی تنقید میں جو اعتدال ہوتا ہے وہی اعتدال نہ صرف اُن کی تقریر میں نظر آیا بلکہ اُن کے رکھ رکھاؤ اور برتاؤ میں بھی نظر آیا۔ خطابت کے دریا تو اُردو کے بہت سے پروفیسر بہاتے ہیں بلکہ بعض پروفیسر تو ایسے بھی ہیں جو پہلے تو خطابت کا دریا بہاتے ہیں۔ بعد میں جب یہ دریا اُن کے قابو میں نہیں رہتا تو اس دریا میں خود بہنے لگتے ہیں اور اکثر صورتوں میں اپنے سامعین کو اس دریا کے کنارے بے یار و مددگار چھوڑ کر خود ڈوب جاتے ہیں۔ سرورؔ صاحب خطابت کے معاملے میں دریا بہانے کے قائل نہیں ہیں۔ اُن کی تقریر میں ہر دم چھوٹے چھوٹے چشمے اُبلتے رہتے ہیں اور جب تقریر ختم ہوتی ہے تو خیال ایک وشال سمندر کی طرح پھیل جاتا ہے جو وسیع بھی ہوتا ہے اور عمیق بھی۔ دوسری طرف ہمارے بہت سے دانشور ایسے بھی ہیں جو نپی تلی بات کرنے کی کوشش میں بات کم کرتے ہیں اور ناپتے تولتے زیادہ رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ بنیے اور دانشور میں کچھ تو فرق ہونا چاہئے۔ سرورؔ صاحب سچ مچ نپی تلی اور سوچی سمجھی بات کرتے ہیں اور ذہن کی گرہیں کھولتے چلے جاتے ہیں۔ سرورؔ صاحب کو پہلی بار سُن کر دل و دماغ کو ایک عجیب و غریب سرور حاصل ہوا۔ میں نے ایک مدّاح اور عقیدت مند کی حیثیت سے اپنی آٹوگراف بُک میں اُن کے آٹو گراف لیے اور یہ آٹو گراف بُک آج بھی میرے پاس ’’تحفۃ السرور‘‘ کے طور پر محفوظ ہے۔
سرورؔ صاحب سے میری شخصی ملاقات 1972 ء میں دہلی میں ہوئی۔ اس وقت پتہ چلا کہ سرورؔ صاحب بیکار اور بے معنیٰ ادب کا مطالعہ بھی کرتے ہیں، چنانچہ وہ میرے بعض مضامین پڑھ چکے تھے اور اُن کے حوالے سے مجھے جانتے تھے۔ اُن دنوں میں حکومت ہند کی ’’کمیٹی فار پروموشن آف اُردو‘‘ میں کام کرنے کے لئے ڈیپوٹیشن پر دو سال کے لیے حیدرآباد سے دہلی آیا تھا۔ میں اور ڈاکٹر خلیق انجم، جو اب سرورؔ صاحب کے جانشین کی حیثیت سے انجمن ترقی اُردو (ہند) کے جنرل سکریٹری بن کر خلیق انجمن بن گئے ہیں، شاستری بھون کے ایک کمرہ میں بیٹھا کرتے تھے۔ سرورؔ صاحب کمیٹی کے کام کے سلسلہ میں علی گڑھ سے دہلی آتے تو کبھی اس کمرہ میں بھی آجاتے اور اپنی شفقتوں سے نوازتے۔ مجھے اس وقت ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ فروری 1974 ء میں یہی دن تھے بلکہ اتفاق سے تاریخ بھی یہی تھی۔ اُردو کمیٹی کا کام تقریباً ختم ہورہا تھا اور میں اُردو اور اُس کی کمیٹی کا بوریا بستر گول کر کے حیدرآباد واپس جانے کی تیاریاں کررہا تھا۔ دوستوں نے کہا بھی کہ اب دہلی آگئے ہو تو دہلی میں ہی رہو۔ حیدرآباد واپس کیوں جاتے ہو، مگر سوال نوکری کا تھا۔ میں اُردو کی روٹی کھانے سے حتی الامکان گریز کرتا ہوں کیوں کہ اُردو کی روٹی پہلے تو آسانی سے نہیں ملتی اور اگر ملتی بھی ہے تو اس روٹی کی تقسیم میں بہت گھپلا ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دوسرے پیشوں میں لگے ہوئے لوگوں کو اللہ میاں خود روٹی دیتے ہیں لیکن اُردو کی روٹی اُردو کا پروفیسر دیتا ہے جو سلیکشن کمیٹیوں میں بیٹھتا ہے۔ وہی ہمارا رازق اور اَن داتا ہوتا ہے، پھر جس طرح وہ روٹی دیتا ہے اگر خدانخواستہ اللہ میاں بھی اسی طرح دینے لگ جائیں تو شاید آدمی بھوکا رہنے کو ضروری سمجھے۔ بندے کی بھی تو ایک انا ہوتی ہے۔ اسی لیے اُردو کی روٹی میں غذائیت کم اور ذلّت زیادہ ہوتی ہے۔ اسے اتفاق ہی سمجھئے کہ جب میں حیدرآباد جانے کی تیاریاں کررہا تھا تو اچانک نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ سے میرے نام ایک انٹرویو کال آیا کہ 23 فروری کو اُردو کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کی اسامی کے انٹرویو میں شرکت کرو۔ میں نے نہایت بے دلی کے ساتھ اس انٹرویو میں شرکت کرنے کا فیصلہ تو کیا مگر جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ بارہ سال پہلے آج ہی کے دن دوپہر میں یہ انٹرویو تھا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ انٹرویو میں کون اکسپرٹ ہوگا اور اُمیدوار کون کون ہوں گے۔ میں شاستری بھون میں بیٹھا تھا کہ اچانک سرورؔ صاحب اپنے ہاتھ میں سامان پکڑے علی گڑھ سے آگئے۔ میں کمرے میں اکیلا تھا۔ بولے ’’ابھی علی گڑھ سے آرہا ہوں۔ دوپہر میں ایک ضروری کام ہے۔ میں سامان یہاں چھوڑے جارہا ہوں۔ شام میں آکر اِسے لے جاؤں گا۔ تم تو اپنے دفتر میں ہی رہو گے؟‘‘
میں نے کہا ’’سرورؔ صاحب! دوپہر میں مجھے بھی ایک غیر ضروری کام سے باہر جانا ہے مگر شام تک واپس آجاؤں گا۔ آپ شوق سے اپنا سامان یہاں چھوڑ جائیں‘‘۔ وہ چلے گئے تو میں انٹرویو دینے کے لئے بھاگ کھڑا ہوا۔ وہاں کئی جغادری امیدوار ہاتھوں میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لیے بیٹھے تھے۔ مجھے اپنی بی ۔ اے کی ڈگری پر بہت شرم آئی۔ اس یونیورسٹی کو بھی شرم آئی ہوگی جس نے مجھے یہ ڈگری دی تھی۔ میں چپ چاپ وہاں سے کھسک جانے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک میرا نام پکارا گیا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ اندر گیا تو دیکھا کہ بڑے نامی گرامی پروفیسر صاحبان بیٹھے میرا انتظار کررہے ہیں۔ اُن میں پروفیسر آل احمد سرورؔ بہت نمایاں تھے۔ میں نے سوچا اچھا تو یہی ضروری کام تھا سرورؔ صاحب کا دہلی میں۔ پھر خیال آیا چونکہ سرورؔ صاحب کا سامان میرے ہی کمرہ میں ہے، اسی لیے وہ میری خاطر نہ سہی کم ازکم اپنے سامان کی خاطر ہی میرے ساتھ ضرور ہمدردی کریں گے۔ مگر انٹرویو شروع ہوا تو معاملہ ہی دوسرا تھا۔ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی جن سے میں کبھی نہیں ملا تھا، نہایت نرمی اور شفقت سے پیش آتے رہے بلکہ کھُلے بندوں اوردن دہاڑے میری تعریف تک کرتے رہے، جب کہ سرورؔ صاحب نے طرح طرح کے سوالوں کی بوچھار مجھ پر کردی۔ میں پسینہ میں شرابور ہوگیا۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ آئندہ کبھی اُردو کی روٹی نہیں کھاؤں گا۔ میں انٹرویو کے بعد کمرہ سے باہر نکل آیا۔ اپنا پسینہ خشک کیا۔ کچھ اُمیدواروں سے باتیں کیں۔ معلوم ہوا دو اُمیدوار ایسے بھی ہیں جو سرورؔ صاحب کے عزیز شاگرد رہ چکے ہیں۔ میں مایوس ہوگیا۔ مگر آس بھی کیا بُری چیز ہوتی ہے۔ میں نے سوچا سرورؔ صاحب اپنا سامان لینے کے لیے میرے کمرے پر آئیں گے تو نتیجہ کے بارے میں اُن سے پوچھ لوں گا۔ بسوں میں دھکے کھاتے کھاتے دفتر واپس آیا تو دیکھا کہ سرورؔ صاحب اپنا سامان لے کر کب کے جاچکے تھے۔ اُن کے اس طرح چلے جانے سے مجھے اپنے نتیجے کا اندازہ ہوگیا اور میں نے حیدرآباد واپس جانے کی تیاریاں زور و شور سے شروع کردیں۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ آئندہ کبھی اُردو کے کسی پروفیسر کے سامان کی حفاظت نہیں کروں گا۔ آٹھ دن بعد میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ NCERT سے میرے نام خط آیا کہ میاں تمہارا انتخاب ہوگیا ہے، آکر اپنا راج پاٹ سنبھالو۔ خط کا متن کچھ اس طرح تھا کہ میاں چوں کہ تمہاری تعلیم بہت کم ہے۔ اسی لیے اس کی تلافی کے لیے تمہیں دو زائد انکریمنٹس (INCREMENTS) بھی دیئے جائیں گے۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ سرورؔ صاحب نے انٹرویو میں مجھے پریشان کرنے کے لیے جتنا زور لگایا تھا اتنا ہی زور انھوں نے میرے انتخاب کے لیے بھی لگایا تھا۔ پروفیسر گیان چند جین نے سرورؔ صاحب پر اپنے خوبصورت خاکہ میں لکھا ہے کہ سرورؔ صاحب سلیکشن کمیٹیوں کے بہترین رُکن ہوتے ہیں اور کبھی غلط انتخاب نہیں کرتے۔ میں اُن کے اس دعویٰ کی تردید کے لیے اپنی مثال پیش کرتا ہوں کہ سرورؔ صاحب کبھی کبھی انتخاب میں غلطی بھی کرجاتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ اگر اس دن سرورؔ صاحب نے میرے کمرے میں اپنا سامان نہ رکھوایا ہوتا تو آج میں اپنی بے سرو سامانی کے ساتھ حیدرآباد میں ہوتا۔
اگرچہ بزرگوں کی خامیوں کی طرف اشارہ کرنا خود ایک خامی ہے مگر میں سرورؔ صاحب کی ایک خامی کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا کہ وہ اُردو کے پروفیسر ہونے کے باوجود اُردو کے پروفیسر نہیں لگتے۔ اُن میں وہ بات ہی نہیں ہے جو اُردو کے بہت سے رائج الوقت پروفیسروں میں پائی جاتی ہے۔ اُن میں چھل ہے نہ کپٹ، سازش ہے نہ ہیر پھیر، کینہ ہے نہ بغض، غیبت ہے نہ منافقت، نہ اقتدار کی ہوس ہے نہ صاحبانِ اقتدار کی قربت سے اُنھیں کوئی سروکار ہے۔ اُردو کے استاد اب جوڑ توڑ کے ہی نہیں بلکہ توڑ توڑ کے قائل ہوتے جارہے ہیں۔ یہ صلاحیت اب اُردو کے پروفیسروں کی بنیادی قابلیت میں شمار کی جانے لگی ہے اور اُردو کلچر کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ سرورؔ صاحب ان سب باتوں سے بے نیاز نام و نمود اور شہرت کی طلب سے بے تعلق اپنے جہانِ علم و دانش میں مست اور مگن ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ گروہ بندیوں سے اپنے آپ کو الگ رکھا ہے۔ انھوں نے اپنے لیے غیر جانبداری، میانہ روی اور اعتدال پسندی کی وہ مشکل روش اختیار کی ہے جس پر آج کے دور میں چلنا اور پھر سرخ رُو ہونا کوئی مذاق دل لگی نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ عالمی سیاست میں ہندوستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے (NON-ALIGNMENT) یا غیر جانبداری یا ’’گُٹ نِر پیکشتا‘‘ کو رائج کیا ہے لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے فخر ہورہا ہے کہ اُردو ادب میں ’’یہ گُٹ نرپیکشتا‘‘ سرورؔ صاحب کی وساطت سے پچھلے پچاس برسوں سے رائج ہے۔
سرورؔ صاحب کے مزاج میں جو استغنا ہے، جو بے نیازی ہے، جو نرمی اور ملائمت ہے، جو اعتدال اور توازن ہے وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ یہ بیش بہا دولت اُن کی اپنی ہے۔ میں اُن کے فرزند صدیقؔ احمد صدیقی کا گہرا دوست ہوں۔ سرورؔ صاحب کے مزاج میں جتنی نرمی ہے اتنی ہی تندی صدیقؔ کے مزاج میں ہے۔ جتنا توازن سرورؔ صاحب کی ذات میں ہے اتنا ہی عدم توازن صدیقؔ کی ذات میں ہے۔ سرورؔ صاحب کسی بھی معاملہ میں حتمی رائے نہیں دیتے۔ صدیق نہ صرف رائے دے دیتے ہیں بلکہ فیصلہ بھی صادر کردیتے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں :
اگر پدر نتو اند پسر تمام کُند
انعامات اور اعزاز سرورؔ صاحب کے پیچھے بھاگتے ہوں تو یہ الگ بات ہے مگر سرورؔ صاحب نے کبھی انعامات اور اعزازات کے پیچھے بھاگ کر اپنے آپ کو ہلکان نہیں کیا۔
یہ بات ہم سب کے لیے بڑی مسرت کی ہے کہ آج سرورؔ صاحب کے اعزاز میں شائع کردہ کتاب ’’تحفۃ السرورؔ‘‘ کا اجراء ہورہا ہے۔ اگرچہ یہ کتاب اپنے نام سے تصوف کی کوئی کتاب معلوم ہوتی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو سرورؔ صاحب سچ مچ جدید اُردو ادب کے صوفی اور قلندر ہی ہیں۔ جن کا مسلک لوگوں میں علم اور آگہی کی دولت دونوں ہاتھوں سے لٹانا رہا ہے۔ سرورؔ صاحب نے اپنے افکار و خیالات کے ذریعہ کئی نسلوں کی ذہنی تربیت کی ہے۔ اپنی تنقیدی بصیرت کے ذریعہ لاکھوں ذہنوں کو جلا بخشی ہے۔ سرورؔ صاحب اپنی وضع کے آخری اُردو پروفیسر اور دانشور ہیں۔ جب جب اُنھیں دیکھتا ہوں تو فراقؔ گورکھپوری کا وہ شعر مجھے یاد آتا ہے جس میں انھوں نے اپنے ہم عصروں کو اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت کیا ہے کہ انھوں نے فراقؔ کو دیکھا تھا اور فراقؔ سے باتیں کی تھیں۔ سرورؔ صاحب کے بارے میں میرا تاثر بھی کچھ اسی طرح کا ہے کہ ہم اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے سرورؔ صاحب کو نہ صرف دیکھا، اپنے کانوں سے انھیں سنا، اپنے دل سے اُنھیں محسوس کیا، اپنے دماغ سے انھیں سوچا۔ ہم نے انھیں نہ صرف پرکھا اور برتا ہے بلکہ اُن کے سامان کی حفاظت بھی کی ہے اور آگے بھی اُن کی اقدار کی حفاظت کرتے رہیں گے۔
 (23 فروری 1986 ئ)