پارلیمانی انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کے رخ سے مسلم تنظیمیں مایوسی، مناسب نمائندگی دینے کا مطالبہ

پارلیمانی الیکشن کو لے کر پورے ملک میں تیاریاں جاری ہیں۔ سیاسی پارٹیوں نے ووٹرس کو رجھانے کے لئے جہاں اپنی بساط بچھانی شروع کردی ہے ، وہیں مسلم سماج پارلیمنٹ میں اپنی نمائندگی کو لے کر فکر مند ہے۔ 2019میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات بہت اہم ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ اس ملک میں رہنے والے سبھی سماج کے لوگ پارلیمنٹ میں اپنے نمائندے زیادہ سے زیادہ بھیجنے کے لئے کوشاں ہیں۔

گزشتہ چار پارلیمانی انتخابات کے اعدادو شمار پر نظر ڈالیں تو ہمیں مسلم نمائندگی کو لے کر ایک مایوسی دیکھنے کو ملتی ہے۔ 1999 کی پارلیمنٹ میں پورے ملک سے 32 مسلم نمائندے پہنچے تھے۔اسی طرح 2004 میں مسلم نمائندوں کی تعداد میں ایک معمولی سا اضافہ ہوا ۔ دوہزار چار میں 35 مسلم نمائندوں نے کامیابی حاصل کی اور پارلیمنٹ پہنچے ۔2009 کی پارلیمنٹ میں مسلم نمائندوں کی تعداد میں کمی آئی اورجب 2014 کے پارلیمانی انتخابات ہوئے ، تو اس میں نہ صرف سیاسی پارٹیوں نے مسلم نمائندوں کو کم تعداد میں ٹکٹ دیا بلکہ مسلم نمائندوں کی پارلیمنٹ میں تعداد گھٹ کر 23 ہو گئی ۔ مسلم دانشور اس کے لئے سیاسی پارٹیوں کی سوچ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

اسمبلی ہو یا پارلیمنٹ مدھیہ پردیش میں مسلم نمائندگی میں 1980 کے بعد سے زوال جاری ہے۔ مدھیہ پردیش اسمبلی میں 1980 میں جہاں چودہ مسلم ایم ایل اے ہوا کرتے تھے ، اب وہیں ایم پی اسمبلی میں مسلم نمائندوں کی تعداد سمٹ کر دو تک رہ گئی ہے ۔وہیں پارلیمنٹ میں نمائندگی کی بات کی جائے ، تو فی الحال مدھیہ پردیش سے ایک بھی مسلم ممبر پارلیمنٹ نہیں ہے۔ چھتیس گڑھ کا بھی یہی حال ہے۔ چھتیس گڑھ کی گیارہ پارلیمانی سیٹیں اور مدھیہ پردیش کی 29 پارلیمانی سیٹوں سے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں کسی بھی سیاسی پارٹی نے کسی بھی مسلم امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا تھا۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے مسلم تنظیموں نے ابھی سے سیاسی پارٹیوں پر دباؤ بنانا شروع کردیا ہے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں سے ووٹ تو چاہتی ہیں ، لیکن نمائندگی کے نام پر خاموش ہو جاتی ہیں۔ موجودہ میں دہلی سے ناگپور تک کا علاقہ جو دیڑھ ہزار کلو میٹر پر مشتمل ہے ۔اتنے بڑے حلقے سے ایک بھی مسلم نمائندہ پارلیمنٹ میں نہیں ہے۔ حالانکہ اس دیڑھ ہزار کلو میٹر میں یوپی،ایم پی،چھتیس گڑھ اور ریاست مہاراشٹر کی سر زمین آتی ہے۔

گزشتہ سال ہوئے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے سافٹ ہندتو پر رہتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی اور اب بھی کانگریس اسی راہ پر گامزن ہے ۔ جبکہ بی جے پی ہارڈ ہندتو کی بیساکھی پر سوار ہو کر اپنی منزل حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایسے میں مسلم تنظیموں نے اپنی نمائندگی کو لے کر حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے۔ مسلم تنظیموں کی حکمت عملی نمائندگی حاصل کرنے میں کتنی کامیاب ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔