’ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف بائیک پر لڑکے ہی مہم چلاسکتے ہیں۔ وہ سونچ اب بدل گئی ہے‘۔

علی گڑہ مسلم یونیورسٹی میں ایک لڑکی کی ویڈیو وائرل ہورہا ہے ‘ جیتنے والے چاہتے ہیں کہ وہ دقیانوسی سونچ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
علی گڑھ۔ ڈسمبر 9کے روزصبح دس بجے کے قریب سفید جین اور ایمبرائیڈری کا کرتا زیب تن کئے سر کو سفید ڈپٹے سے ڈھانک پر شاربہ تسنیم علی گھ مسلم یونیورسٹی میں ویمنس کالج کے کابینی پوسٹ کے لئے مہم کی شروعات کی غرض سے روانہ ہوئی۔ اپنے دیگر ساتھیوں کے برعککس انہوں نے تقریر اور پوسٹرس کو ووٹ حاصل کرنے کے لئے سہارا نہیں بنایا۔ اس کے بجائے 19سال کی بے کام سال دوم کی طالب علم رائل اینفلیٹ بلٹ پر سوار ہوکر کیمپس کے ارد گرد گھومتی رہی او رلوگوں سے ملاقات کی۔تسنیم بائیک پر سوار ہوکر دیگر اسٹوڈنٹس کے پاس جاتی اور اپنے لئے ووٹ مانگتی تھی ۔ اس دوران تسنیم کے بیس دوسرے ساتھی موٹر سیکل پرسوار اس کا تعقب کرتے رہتے ۔

بڑی مشکل سے تسنیم نے اپنے دوستوں کو بائیک کے ذریعہ مہم چلانے کے لئے رضا مند کیا۔ دوستوں کا کہناتھا کہ صرف لڑکے بائیک پر انتخابی مہم چلاسکتے ہیں مگر یہ سونچ اب بدل گئی ہے۔ کیمپس میں تسنیم بائیک والی لڑکی کے نام سے مشہور ہوگئی۔ الیکشن 11ڈسمبر کو تھا جبکہ نتائج اس کے دوسرے دن ہی برآمد ہوگئے اور تسنیم کوفاتح قراردیا دگیا۔وائیرل ویڈیو کے مطابق لوگوں کا ماننا ہے کہ اس لڑکی کی چھوٹی سے کوشش نے دقیانوسی سونچ کو بدل دیا۔تسنیم نے کہاکہ ’’ ہمارے آگے میرا ایک دوست بائیک پر سوار ہوکر آگے چلتا اور اس کے پیچھے ایک اور دوست بیٹھ کر بائیک کے ذریعہ چلائی جانے والی ہماری مہم کی منظر کشی کرتا۔ آسانی کے ساتھ یہ ویڈیو میرا نسٹاگرام پیچ پر اپ لوڈ کردیاجاتا ‘ جس کے ساتھ وہ ویڈیو ہر جگہ پہنچتا۔گریجویشن کی تکمیل کے بعد تسنیم اکاونٹنٹ بننا چاہتی ہے ۔

ان کے والد سعودی عربیہ میں کام کرتے ہیں جبکہ تسنیم کے بچپن میں ہی گھر والے بہار سے علی گڑھ منتقل ہوگئے تھے۔سال1906میں اسکو کی حیثیت سے قائم ہوئے اس ویمنس کالج میں2,767طلبہ 33کورسس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کالج سنٹر یونیورسٹی کا حصہ ہے ‘ یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کا حصہ نہیں ہے۔تاہم کالج کی نو منتخبہ صدر نبانسیم کا یہ کہنا ہے کہ کالج کے جوان عورتوں کوخود کی قابلیت کاپیش کرنے سے نہیں روکا جاسکتا‘ انہوں نے اس موقع پر سابق امریکہ اسٹیٹ سکریٹری کونڈلیزا رائیس‘ سابق لیبائی لیڈر معمر قذافی کی بیٹی عائشہ قذافی اور اندرا گاندھی جنھوں نے ایمرجنسی نافذ کی تھی کو اپنا رول ماڈل کا حصہ قراردیا۔ نسیم 18سال کی بی اے پولٹیکل سائنس کی سال دوم کی طالب علم ہیں ان کا تعلق علی گڑھ سے ہے او ران کی فیملی کئی سال قبل لکھنو منتقل ہوگئی تھی۔

مگر ان کی فیملی کے متعلق پوچھنے پر وہ ٹال مٹول کر تے ہوئے کہاکہ صرف ماں کے متعلق بات کرنے کو کہا جنھوں نے نسیم کی حوصلہ افزائی میں اہم رول ادا کیاہے۔کالج کی پرنسپل نعیمہ خاتون کا کہنا ہے کہ’’ بائیک ریالی ٹھیک ہے ‘ مگر لڑکیاں تعلیم میں بھی لڑکوں سے آگے ہیں۔ یہاں تک کے پچھلے تعلیمی سال میں یونیورسٹی کو222گولڈ میڈلس حاصل ہوئے جس میں 190میڈل لڑکیوں نے حاصل کئے ہیں‘‘۔ تسنیم نے کہاکہ انہیں برقعہ یا حجاب پہننے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی ’’ کالج پہنچنے کے بعد میںیہ اتاردیتی ہوں۔ اس کے علاوہ سورچ کی شعاعوں سے بچنے میں بھی مجھے اس سے مدد ملتی ہے او رمیں اندر کچھ بھی پہن کر آسکتی ہوں‘‘۔

یونیورسٹی کی لڑکیاں قومی مسائل پر بھی نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرتی ہیں او رپوری آزادی کے ساتھ اس پر بات کرتی ہیں۔ ایک طالب علم ارینہ حالیہ دنوں میں راجستھان میں پیش ائے افرازل الاسلام کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی۔ شادی کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ شادی ختم نہیں ہے انہوں نے فلم رانجھنا کی مثال پیش کی جس میں سونم کپور اے ایم یو کو میریج کالج کے لقب سے پکار ا ہے ۔

بہت ساری لڑکیاں گرئجویشن کے بعد شادی کرلیتی ہیں ان میں زیادہ تر کی پہلے سے منگنی ہوکر رہتی ہے مگر شادی ختم نہیں ہے ۔ مستقبل میں سیول سرویس میں شامل ہونے کا ارداہ ہے میرا‘‘۔اسٹنٹ پروفیسر شاداب بانو جو تاریخ پڑھاتی ہیں نے کہاکہ جو بھی ہو لڑکیاں ’’لڑکوں کی نقل‘‘ کرتے ہوئے بائیک ریالی نکالتے ہیں ‘‘۔

یونیورسٹی کے بوائز کے میں شرجل عثمانی جو کہ بی اے پولٹیکل سائنس اسٹوڈنٹ کا کہنا ہے کہ وہ بائیک ریالی سے ’’ برقعہ پہنے والی بیوی بنانے کی فیکٹری ‘‘ کے طور پر جو ویمنس کالج کی شبہہ بنی ہے وہ اب ختم ہوجائے گی۔ویمنس کالج کے باہر کھڑے ہوکر خود کو اے ایم یو اسٹوڈنٹ یونین کے طور پر پیش کرنے والے ایک گروپ نے دعوی کیاہے کہ ’’ کوئی ریالی نہیں نکالی گئی ‘ کچھ وائیر ل نہیں ہوا ‘ آپ کو غلط خبر ملی ہوگی‘