وقت ہماری زندگی کا نہایت اہم عنصر ہے۔

غالب انسٹیٹوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی سمینار بعنوان’ اُردو ادب میں وقت کا تصور‘ غالب تقریبا کے دوسرے دن شرکا ء کا اظہار خیال
نئی دہلی۔ غالب انسٹیٹوٹ کے زیراہتمام منعقدہ سہ روزہ بین الاقوامی سمینار بعنوان ’ اُردو ادب میں وقت کا تصور‘‘ کے دوسرے دن ملک وبیرون ملک کے نامو ر‘ ادیب ودانشوروں نے شرکت کی ۔پہلے اجلاس کی صدرات پروفیسر انیس الرحمن نے کی ۔

اس اجلاس میں تین مقالے پڑھے گئے ۔ پہلا مقالہ ڈاکٹر شاد نوید نے پیش کیا۔ دوسرا مقابلہ ڈاکٹر نریش نے ’ وقت کی ہم عنان اُردو شاعری‘‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہاکہ جب ہم اُردو شاعری کی روایت پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُردو شاعری ہمیشہ وقت کی ہم رکاب رہی ہے

۔تیسرا مقالہ جو پروفیسر ابوبکرعباد نے ’’ اُردو فکشن میں وقت کاتصور ‘‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہاکہ داستانوں اور جاتک کتھاؤں میں وقت کا تصور نہایت اہمیت کاحامل ہے۔

پروفیسر انیس الرحمن نے صدراتی کلمات اداکرتے ہوئے کہاکہ صری حسیت او ر وقت کا تصور ایک نہیں ہے ان دونوں کو الگ الگ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے۔عصری حسیت کا پتہ لگانا فکشن میں کافی آسان ہے لیکن شاعری میں اس کو نشان زد کرنا بہت دشوار ہے۔سمینار کے دوسرے اجلاس میں چار مقالے پیش کیے گئے اور صدار سید شاہد مہدی سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کی ۔

پہلے مقابلے میں عاصم صدیقی نے مغربی مفکرین کے نظریات کی روشنی میں قرۃالعین حیدر کے ناول ’ ’ آگ کا دریا‘‘ او رشہریا ر کی شاعری کو موضوع بحث بنایا۔ دوسرا مقالہ پروفیسر علی احمد فاطمی نے ’’ گردش وقت‘‘ او رتخلیق ادب کے موضوع پر پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہر عہد کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور اسی کے زیراثر ادب بھی تخلیق ہوتا ہے اگر کوئی آج داغ کی طرز پر شاعری کرتے یا غلام عباس کے اندازمیں کہانیاں تخلیق کرے تو وہ اپنے وقت کی صحیح نمائندگی کرسکتا ہے۔

تیسرا مقابلہ عبدل بسم اللہ کا تھا آپ نے اپنی گفتگو کے دوران کہاکہ ادیب اپنے عہد کو قید کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ کالی داس نے ابھیگیان شلنتلم میں مکالمات کے ذریعہ وقت کو قید کرلیاہے ۔

اس اجلاس کا آخری مقالہ پروفیسر ابولکلام قاسمی نے ’’ اختر الایمان کی نظموں میں وقت کا تصور‘‘ کے موضوع پر پیش کرتے ہوئے کہاکہ اختر الایمان نے ’ بنت الحات‘ کے پیش لفظ میں کہا ہے کہ میری شاعری میں وقت کا تصور اس طرح ہے جیسے وہ میری ذات کا حصہ ہو۔

اپنی صدارتی تقریر میں سید شاہد مہدی نے کہاکہ چاروں مقالے مختلف جہتوں میں موضوع کااحاطہ کرتے ہیں۔ رام چرترمانس کے تعلق سے آج میرے معلومات میں اضافہ ہوا ‘ مجھے خوشی ہے کہ اس بات کا موضوع روایتی انداز سہ ہٹ کر منتخب کیاگیاہے

لنچ کے بعد تیسرا اجلاس شروع ہوا اس اجلاس میں دو مقالے پڑھے گئے او رصدارت ممتا ز نقاد اور دانشوار شمیم حنفی نے کی ۔پہلا مقاملہ اے رحمان نے ’ گلزار از اور جاوید نامہ او راقبال کاتصور وقت ‘‘ کے عنوان سے پیش کرتے وئے مغربی فلسفے او راقبال کی فکری جہتوں پر فکر انگیزگفتگو کی ۔

ڈاکٹر خالد جاوید نے ’’ وقت کا تصور فلسفیانہ تناظر ‘‘ میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ وقت کی ایک جہت طبعاتی ہے او رمابعد الطبعاتی ہے ہم وقت کو کسی طرح نہ ناپ سکتے ہیں اور نہ ہی قید کرسکتے ہیں۔ پروفیسر شمیم حنفی نے کہاکہ سمینار کا عنوان نہایت اہم ہے ۔

ہم ادب کو بہت محدود کینوس میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں دیکھنا یہ چاہئے کسی بھی تخلیق میں لکھنے والے کا وقت کسی طرح نمایاں ہوسکا ہے۔ دوسرے دن کے چوتھے اور آخری اجلاس میں تین مقابلے پیش کیے گئے۔ صدرات پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کی ۔