واضح اکثریت سے ناقابل یقین حدتک گرواٹ ‘ بی جے پی کی سیٹ سے ووٹ شیئر تناسب

سال2018نے پارٹی کا کھیل بدل دیا۔ بی جے پانچ ریاستوں کرناٹک‘ مدھیہ پردیش‘ چھتیس گڑھ ‘ راجستھان او رتلنگانہ میں کسی ایک ریاست میں بھی اقتدارمیں نہیں ائی‘جہاں پر اسی سال کے دوران الیکشن ہوئے تھے

۔سال2014میں لوک سبھا الیکشن کی شاندار کامیابی کے بعد کچھ حد تک 2017بی جے پی کے لئے ایک اچھا سال رہا ۔بھاری اکثریت کے ساتھ اہم ریاست اترپردیش میں اس نے جیت حاصل کی ۔

اس کامیابی کے نتیجے میں بی جے پی کو اس وقت تحفہ ملا جب جنتادل یونائیڈ نے نتیش کمار نے کانگریس اور راشٹرایہ جنتادل سے ناطہ توڑ کر نیشنل ڈیموکریٹک الائنس میں دوبارہ شمولیت اختیار کرلی۔

مخالف لہر کے باوجود بھی بی جے پی نے گجرات میں جیت حاصل کی اور دوبارہ اقتدار پر اپنا قبضہ جما لیا۔حکومت کے آخر ی سال میں بڑھتے ہوئے بی جے پی ہندوستان کی سیاست میں نئی راہیں تلاش کررہی ہے۔

سوائے تلنگانہ کے ماباقی تمام چار ریاستوں میں 2014کے لو ک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو بڑی تعداد میں سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔

ان تمام ہندی ریاستوں میں جہاں پر بی جے پی کو کانگریس کے مقابلے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا سال2014کے لوک سبھا الیکشن میں یہاں سے بی جے پی نے 65لوک سبھا سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔

سال2019کی پیش رفت کے دوران بی جے پی کی حکمت عملی اپنا جیت میں اضافہ  کرنے کے بجائے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے پر توجہہ مرکوز کرنے پر ہوگی۔حقیقت یہ بھی ہے کہ بی جے پی اب بھی عظیم حمایت کے پیش نظر مضبوط سیاسی مقابلہ کرنے والے کا موقف رکھتی ہے۔

ہندی ریاستوں میں جہاں پر اس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا وہیں ملک کے شمال مشرقی اور مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کا اثر بڑھا ہے۔

تاہم بی جے پی کا سیاسی ردعمل اس کے مخالفین کے حوصلہ افزاء ہوسکتا ہے‘ پارٹی او رووٹرس مجوزہ انتخابات میں ساتھ ائیں گے۔