نہ صرف مسلمان بلکہ بنگالی ہندو بھی آسام کی شہری فہرست سے نکال دئے گئے ہیں

جن لوگوں کے نام فہرست میں نکال دئے گئے ہیں ان میں سابق صدرجمہوریہ ہندفخر الدین علی احمد کے خاندان والے اور ایک بی جے پی ایم ایل اے کی بیوی کا نام بھی شامل ہے
نئی دہلی۔آسام میں کئی خاندان اور افراد کو پیر کے روز شائع ہونے والے این آرسی کے مکمل مسودہ میں اپنے ناموں کی عدم شمولیت پر عدم اطمینان کا اظہار کیاہے۔جن لوگوں کے نام فہرست میں شامل نہیں کئے گئے ہیں ان میں سابق صدرجمہوریہ ہند فخر الدین علی احمد کے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔

سجا د علی احمد سابق صدر کے بھتیجے کا بیٹا نے کہاکہ ’’ ہم نے مقرر وقت میں درخواست نہیں دی تھی‘‘۔

اس فیملی کے چارلوگوں نے لیگسی ڈاٹا میں اپنی ناموں کی عدم شمولیت کے بعد مارچ25سال1971کے الکٹورل رول اور این آر سی 1951کے حوالے سے موجودہ این آر سی میں اپنے نام شامل کرنے کے لئے درخواست نہیں دی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ناموں کے ہٹانے کے عمل میں ہندو بنگالیوں کا بھی بڑا حصہ ہے۔

ان میں سیلچار سے بی جے پی کے رکن اسمبلی اور آسام اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر دلیپ کمار پال کی بیوی نام بھی شامل ہے۔ مگر پال نے نام ہٹانے مسکراتے ہوئے کہاکہ’’ سارے معاملہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں چل رہا ہے‘‘۔

تقسیم ہند کے بعد ایسٹرین پاکستان کی بارک وادی میں منتقل ہونے والے ہزار دیگر ہندوؤں میں پال کا خاندان بھی شامل ہے۔

پال نے کہاکہ ان کی اہلیہ ارچنانے این آر سی میں اپنے نام کی شمولیت کے لئے تمام دستاویزات داخل کئے تھے۔انہوں نے ’’ یہاں پر لاکھوں لوگوں کے نام فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ چارلاکھ میں سے تین لاکھ تو بارک وادی ضلع میں ہی ہیں‘‘۔

اسی طرح کا واقعہ پانڈو میں ان کے گھر کو آنے والوں کے ساتھ ہوا ہے۔بسنتی داس نے کہاکہ ’’ میں یہاں پر پیدا ہوئی‘‘۔ ہم نے1956میں جاری کردہ مہاجرین کارڈ بھی داخل کیاتھا۔ وہیں بسنی کے علاوہ ان کی بیٹی داما اور ان کے تین بچوں کے نام بھی مسودہ میں شامل نہیں ہیں جو گول پورہ میں مقیم ہیں۔

اس کی وجہہ ریاستی این آر سی نے وضاحت کی ہے ۔ این آر سی کے اسٹیٹ کوارڈنیٹر پرتیک ہاجیلا نے کہاکہ’’ خاندان کے ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنے دستاویزات درست انداز میں پیش کرنے ہیں۔

ان واقعات میںیہ ہوسکتا ہے کہ ایک فرد صحیح دستاویزات پیش کئے ہیں جبکہ اسی خاندان کے دوسرے فرد نے غلط دستاویزات پیش کئے ہیں‘‘۔انہوں نے مزیدکہاکہ’’د عوے اور اعتراضات اور بھی بھاری عمل ہے‘‘